اللہ کی رحمت و مغفرت

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

اللہ کی رحمت و مغفرت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا خطاکار توبہ کرلے، اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کرلے، اور اس کی یہ رحمت و مغفرت اُس وقت تک ہے جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے۔‘‘ (مسلم)

بندے کے اپنے مقام کے لحاظ سے یہ بات انتہائی غلط ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے، اور اسی لیے بندے کی نافرمانی اللہ کو مبغوض اور سخت مبغوض ہے۔ اس کے باوجود نہ تو اللہ انسان پر اس کی نافرمانی کے نتیجے میں فوری طور پر کوئی عذاب نازل کرتا ہے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ نافرمانیوں کے بعد اس کو اپنے در سے ہمیشہ کے لیے دھتکار دے۔ وہ عزیزِ مقتدر ہونے کے ساتھ ساتھ رئوف و رحیم بھی ہے اور اُس کی رحمت اس کی تمام صفات پر غالب ہے۔ اس لیے وہ انسان کی سرکشی کی بنا پر اس پر فوراً اپنا غضب نازل کرنے کے بجائے اُسے اس بات کا زیادہ سے زیادہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس کے غضب کے بجائے اُس کی رحمت و عنایت کا مستحق ہوسکے۔ چنانچہ بندہ جس دم بھی اپنی غلط روی پر نادم ہوکر اللہ کی طرف پلٹتا اور اپنی روش سے باز آکر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ اُسی دم اُس کی غلطی کو معاف فرماکر اُسے اپنی رحمت سے نوازتا ہے اور اپنے غضب کو دور فرماکر اُس سے خوش ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان پیارے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اللہ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا خطاکار توبہ کرلے، اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کرلے‘‘۔ گویا نافرمانی ہوجانے کے بعد اللہ بندے سے منہ پھیرلینے کے بجائے اُس سے اس بات کا طالب ہوتا ہے کہ وہ اُس کی طرف پلٹ آئے اور اُس کی کھوئی ہوئی رحمت کو پھر سے حاصل کرلے۔ اللہ اکبر! انسان کی یہ سرکشی کہ وہ اپنے خالق و مالک اور منعمِ حقیقی کی نافرمانی کرے اور کرتا چلا جائے، اور مالک کی یہ عنایت کہ اس کی ان حرکتوں کے باوجود اُس کی طرف اپنی رحمت و مغفرت کا ہاتھ بڑھائے اور اُس کی توبہ قبول کرنے کے لیے ہمہ دم تیار رہے!! ’’اللہ اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے‘‘ اس کا مطلب جہاں یہ ہے کہ انسان توبہ کرکے دراصل اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہے یعنی اُس سے عہدِ زندگی کی تجدید کرتا اور اپنے آپ کو پھر بالکلّیۃ اُس کے سپرد کرتا ہے، وہاں اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسان توبہ کرکے اللہ کی رحمت اور اُس کے قرب کو بلکہ درحقیقت خود اس کو پالیتا ہے۔ توبہ کا کتنا عظیم مقام ہے یہ! ایک حقیر و خطاکار بندے کے آخر اور کیا چاہیے؟

’’اور اُس کی یہ رحمت و مغفرت اُس وقت تک ہے جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے‘‘۔ یعنی نوعِ انسانی کو اُس نے یہ مہلت اُس وقت تک دے رکھی ہے جب تک قیامت کے آثار کھلم کھلا ظاہر نہ ہونے لگیں، قیامت کے بالکل قریب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اور اُس وقت نوعِ انسانی کی مہلتِ امتحان ختم ہوجائے گی اور درِ توبہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔

حامد علی

Post a Comment

0 Comments