امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام ابو عبدالرحمن احمن بن شعیب ہے۔آپ چونکہ خراسان کے شہر’’ نسائی‘‘ میں پیدا ہوئے اس لیے اس نسبت سے آپ کو’’نسائی‘‘کہتے ہیں۔امت مسلمہ میں آپ کی پہچان ایک محدث کی ہے،آپ نے سنن نسائی کے نام سے صحیح احادیث کا ایک عظیم الشان مجموعہ ترتیب دیا۔آپ نے بڑی عرق ریزی سے قابل اعتماد احادیث نبویﷺ کو جمع کیا ،اس مقصد کے لیے آپ نے دوردراز کے سفر کیے اوربہت تکالیف بھی برداشت کیں۔امت مسلمہ میں کل دس کتب احادیث کو سند کادرجہ حاصل ہے ،چھ اہل سنت کے ہاں جنہیں صحاح ستہ کہاجاتا ہے جس کامطلب ’’چھ صحیح کتابیں‘‘ہے اور چار اہل تشیع کے ہاں جنہیں ’’کتب اربعہ‘‘کہاجاتا ہے یعنی ’’چارکتابیں‘‘۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی سنن نسائی کاشمار صحاح ستہ میں ہوتاہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدئش 215ھ میں ہوئی ،اس وقت ’’خراسان‘‘ ممالک اسلامیہ کا بہت اہم صوبہ سمجھاجاتاتھا۔خراسان کا اسلامی تاریخ میں جہاں بہت اہم سیاسی کردارہے وہاں یہ علاقہ اپنی علمی کاوشوں میں بھی پیچھے نہیں رہا،امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے بہت سے وقیع بزرگ اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔امام نسائی نے پندرہ سال کی عمر میں حدیث کاعلم سیکھنا شروع کیا۔
علم حدیث نبوی ﷺکے حصول کے لیے آپ نے خراسان جیسے دوردراز علاقے سے حجاز،عراق،شام اور مصر جیسے ممالک تک کا سفر کیا۔اس زمانے میں علم کے حصول کے لیے سفر کرنا بہت ضروری خیال کیاجاتا تھا،کسی کو اس وقت تک اچھاعالم نہ سمجھاجاتا جب تک کہ وہ دوردرازکے سفر کر کے اچھے اچھے اور قابل اساتذہ فن سے حصول علم نہ کرآتا۔آپ کاآبائی وطن اگرچہ خراسان تھا لیکن آپ نے خدمت حدیث نبویﷺ کے لیے ہجرت کی اور مصر میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سرخ و سفید چہرے اوروجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔آپ کا دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے پر رہتاتھا۔خوش لباسی اور خوش خوراکی کے کئی قصے آپ سے منسوب ہیں۔اما م نسائی رحمۃ اللہ علیہ بھناہوا مرغ بہت شوق سے کھاتے تھے اور اس وقت کے مروج بہت اچھے اچھے مشروب کھانے کے بعد پیاکرتے تھے۔آپ کچھ عرصہ’’ حمص‘‘شہر میں قاضی بھی رہے لیکن بوجوہ یہ منصب ترک کردیااور زیادہ وقت تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کو دینے لگے۔
دمشق کی ایک مسجد میں ایک بار آپ حضرت علیؓ کی منقبت میں اپنی کتاب کے اقتباسات سنا رہے تھے تو بعض لوگ طیش میں آگئے اورحضرت کو مارنا پیٹناشروع کر دیا۔بہت زخمی حالت میں جوش ایمان آپ کو حجاز مقدس کھینچ چلا،حرم کعبہ پہنچ جانے کے باوجود بھی آپ کی علالت باقی تھی اور اسی حالت میں صفاومروہ کے درمیان خالق حقیقی سے جا ملے۔یہ13صفر 303ھ کی تاریخ تھی۔ امام ابو عبدالرحمن نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ شہرت انکی شہرہ آفاق تالیف ’’سنن نسائی شریف‘‘ ہے۔اسکا شمار صحاح ستہ میں ہوتا ہے۔’’سنن‘‘اس کتاب حدیث نبویﷺ اللہ کو کہتے ہیں جس کے ابواب کی ترتیب فقہ کی کتابوں کے مطابق تیار کی گئی ہو۔ پہلے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’سنن کبری‘‘تصنیف کی تھی۔یادرہے کہ یہ وہ وقت تھا جسے تاریخ حدیث میں دور فتن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب جب امیر رملہ کو پیش کی تو اس نے پوچھا کیا اس میں سب صحیح احادیث ہیں ؟آپ نے جواب دیا نہیں ،تب امیر رملہ نے کہا کہ میرے لیے ایک ایسی کتاب تیار کریں جس میں سب احادیث صحیح ہوں۔اس پر امام صاحب نے ’’سنن نسائی شریف‘‘کی تدوین کی۔
0 Comments