" کاش! میں اس قبر میں دفن کیا جاتا..!! "
وہ ایک یتیم بچہ تھا.. اس کے چچا نے اس کی پرورش کی تھی.. جب وہ بچہ جوان ہوا تو چچانے اونٹ ، بکریاں غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی تھی.. اس نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا.. لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کرسکا..
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واله وسلم فتح مکہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا.. " مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے.. اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آرہا ہے.. میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا.. مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہوجاؤں.. "
چچا نے جواب دیا.. " دیکھ ! اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ واله وسلم) کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا.. تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا.. "
اس نے جواب دیا.. " چچاجان ! میں مسلمان ضرور ہوں گا اور محمد صلی اللہ علیہ واله وسلم کی اتباع قبول کروں گا.. شرک اور بت پرستی سے بیزار ہوچکا ہوں.. اب آپ کا جو منشاء ہے کریں.. اور جو کچھ میرے قبضہ میں مال وزر وغیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے.. میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے.. اس لیے میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں کرسکتا.. "
اس نے یہ کہہ کر ان کے دیے کپڑے بھی لوٹا دییے اور ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھ لی.. پھر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا..
" میں مومن اور موحد ہوگیا ہوں.. نبی کریم صلی اللہ علیہ واله وسلم کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں.. ستر پوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے.. مہربانی کرکے کچھ دے دیجیے.. "
ماں نے ایک کمبل دے دیا.. اس نے کمبل پھاڑا ' آدھے کا تہبند بنالیا ' آدھا اوپر کرلیا اور مدینہ کو روانہ ہوگیا..
علی الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے ٹیک لگا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم کے انتظار میں بیٹھ گیا.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم جب مسجد میں آئے ' اسے دیکھ کر پوچھا.. " "کون ہو..؟ "
کہا.. "میرا نام عبدالعزی ہے.. فقیر و مسافر ہوں.. طالب ہدایت ہو کر آپ کے در پر آپہنچا ہوں.."
نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم نے فرمایا.. " آج سے تمہارانام عبداللہ ہے.. ذوالبجادین لقب ہے.. تم ہمارے قریب ہی ٹہرو اور مسجد میں ہی رہا کرو.. "
یوں عبداللہ اصحاب صفہ میں شامل ہوگئے.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم سے قرآن پاک سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق وشوق اور خوش ونشاط سے پڑھا کرتے..
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نفل نماز پڑھ رہے ہیں.. اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کررہا ہے کہ دوسروں کی قرآت میں مزاحمت ہوتی ہے.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم نے فرمایا.. " عمر! اسے کچھ نہ کہو.. یہ تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے.. "
عبداللہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم نے انہیں دعا دیتے ہوئے فرمایا.. " الٰہی ! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں.. "
عبداللہ نے کہا.. " یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واله وسلم ! میں تو شھادت کا طالب ہوں.. "
نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم نے فرمایا.. " جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہوگے.. "
تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کرگئے..
بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے.. رات کا وقت تھا.. پہلے وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ان کی لاش لحد میں رکھ رہے تھے.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے فرمارہے تھے.. "اپنے بھائی کو میرے قریب کرو.."
نبی اکرم صلی اللہ علیہ واله وسلم نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا فرمائی.. " اے اللہ ! میں ان سے راضی ہوا.. تو بھی ان سے راضی ہوجا.. "
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.. " کاش! اس قبر میں میں دفن کیا جاتا..!! "
بحوالہ مدارج النبوۃ.. جلد 2.. صفحہ 90۔91
0 Comments