...................
جب صلح حدیبیہ طے پا گئی تو بنو خزاعہ رسول اللہﷺکے حلیف بن گئے اور بنو بکر قریش کے ساتھ مل گئے۔ بنو بکر کے ایک آدمی نے بنو خزانہ کے ایک آدمی کو قتل کردیا۔اس کے نتیجے میں دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ بھڑک اٹھی۔ قریش نے اسلحے کے ساتھ بنو بکر کی مدد کی بلکہ رات کے اندھیرے میں قریش کے کچھ لوگ بنوبکر کے ساتھ مل کر لڑائی میں شریک بھی ہوئے۔ اس طرح انھوں نے صلح حدیبیہ کے مع...اہدے کی خلاف ورزی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس مدد کا مطالبہ لے کر آیا۔ آپ نے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا اور اعلان فرما دیا کہ ہم مکہ جائیں گے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! قریش کے جاسوسوں کو قابو کر لے تاکہ ہم مکہ والوں کو اچانک جالیں۔‘‘
رسول اللہﷺ 10رمضان المبارک کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کو رسول اللہﷺ اور لشکر کی روانگی کا کچھ پتہ نہیں تھا کیونکہ آپ ﷺ قریش سے خبروں کی مکمل ناکہ بندی کرچکے تھے۔ اتفاقاً ایک رات ابو سفیان، حکیم بن حزام اور بُدَیل بن ورقاء کسی خبر کی تلاش میں مکہ سے باہر آئے۔ ادھرنبی کریمﷺکے چچا عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے سفید خچر پر سوار پھر رہے تھے کہ کوئی شخص ملے تو اسے مکہ والوں کے پاس بھیجیں کہ رسول اللہﷺتشریف لا چکے ہیں، لہٰذا اہل مکہ آکر امان حاصل کرلیں۔
اتفاقاً سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ابو سفیان مل گئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں قائل کیا کہ میرے ساتھ سوار ہوکر رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں اور مکہ والوں کے لیے امان حاصل کرلیں۔ وہ ان کے ساتھ گئے تو آپﷺنے اسلام کی پیشکش کی۔ ابو سفیان مسلمان ہو گئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’اللہ کے رسول! ابوسفیان سردار شخص ہے۔ فخر کا خواہش مند ہے، لہٰذا اسے کچھ امتیاز عطا فرمائیں۔‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا:
’نَعَمْ! مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِيْ سُفْیَانَ فَھُوَاٰمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہٗ فَھُوَ اٰمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَھُوَا اٰمِنٌ‘
’’ٹھیک ہے! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امان حاصل ہوگی۔ جو اپنا دروازہ بند کرکے گھر بیٹھ جائے، اسے بھی امان حاصل ہو گی۔ جو بیت اللہ میں چلا جائے، اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔‘‘( سیرۃ ابن ہشام: 46/4)
جب نبی اکرمﷺذو طویٰ نامی وادی میں داخل ہوئے تو آپ نے فتح مندی کے احسان کا شکر اداکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر جھکایا ہوا تھا حتیٰ کہ آپ کی داڑھی مبارک کے بال پالان کی لکڑی کو لگ رہے تھے۔
لشکر کا مکہ مکرمہ میں داخلہ
لشکر اسلام کا ہر دستہ رسول اللہﷺکی ہدایات کے مطابق پیش قدمی کر رہا تھا۔ کوئی مزاحمت نہیں ہورہی تھی۔ صرف مکہ مکرمہ کی نشیبی جانب بنوبکر اور حبشیوں کے کچھ لوگوں نے خالدرضی اللہ عنہ کے دستے کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ جلد ہی شکست کھا گئے۔ صفوان بن اُمیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو نے بھی خندمہ کے علاقے میں کچھ لوگ لڑائی کے لیے جمع کر رکھے تھے۔ جب خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اپنے دستے سمیت پہنچے تو انھوں نے بھی تھوڑی بہت مزاحمت کی۔ ان میں سے تقریباً بارہ تیرہ آدمی مارے گئے، باقی بھاگ کھڑے ہوئے۔
رسول اللہﷺ نے دستوں کے امیر مقرر فرماتے وقت انھیں تاکید فرمائی تھی کہ مکہ مکرمہ میں داخلے کے وقت کسی کو قتل نہ کریں الا یہ کہ کوئی ان سے لڑائی لڑے، البتہ آپ نے چند اشخاص کے نام لے کر ان کے قتل کا حکم دیا تھا، خواہ وہ بیت اللہ کے پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے کیوں نہ مل جائیں۔ ان کے نام یہ تھے:
عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سَرْح، عبداللّٰہ بن خطلّ اوراس کی دو گانے والی لونڈیاں، حُوَیرِث بن نُقَیذ۔ مِقْیَس بن صُبَابَہ۔ عِکرِمَہ بن اَبی جَھل اور بَنُو عبدالمُطَّلِب کی ایک لونڈی سَارَّہ۔
مگر ان میں سے صرف عبداللّٰہ بن خطلّ، مِقیَس بن صُبَابَہ اور اِبن خطلّ کی ایک لونڈی قتل کردیے گئے باقی نے معافی مانگ لی اور آپ ﷺ نے انھیں معاف فرما دیا۔
رسول اللہﷺجمعۃ المبارک بتاریخ 19رمضان المبارک 8ھ کو اَذَاخِر کے مقام سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ یہ ’’تاریخ القدس‘‘ میں عَلِیمی کا قول ہے، البتہ فاسی کی ’’تُحفَۃُ الکِرَام بِاَخبَارِ بَلَدِ اللّٰہِ الحَرَام‘‘ میںواقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ جمعۃ المبارک کو مکہ مکرمہ میں تشریف فرما ہوئے جبکہ رمضان المبارک کے دس دن باقی تھے۔‘‘
نبیﷺکے لیے مقام اَبطَح میںخصوصی خیمہ لگا دیا گیا تھا۔ آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار داخل ہوئے۔ آپ ﷺ کے پیچھے سواری پر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سوار تھے اور آپ کے ایک طرف ابوبکرتھے اور دوسری طرف اُسید بن حُضیر۔ آپ اپنے خیمے میں فروکش ہوئے۔ ابن عمرفرماتے ہیں:
’’رسول اللہﷺمکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مشرکین کی عورتیں گھوڑوں کے چہروں سے اپنے دوپٹوں کے ساتھ گردو غبار جھاڑ رہی تھیں۔ ابوبکر مسکرائے۔ آپe نے فرمایا: ’’ابوبکر! حسان نے کیسے کہا تھا؟ ابوبکرنے حسان بن ثابت کے یہ شعر پڑھے ؎
عَدِمْتُ بُنَیَّتِیْ إِنْ لَّمْ تَرَوْھَا
تُثِیْرُ النَّقْعَ مِنْ کَنَفَیْ کَدَائِ
یُنَازِعْنَ الْأَعِنَّۃَ مُسْرَجَاتٍ
یُلَطِّمُھُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَائُ
’’میری بیٹی مر جائے اگر تم ہمارے گھوڑوں کو کَدَاء کے دونوں کناروں پر گردوغبار اڑاتے نہ دیکھو۔ وہ اپنے سواروں سے باگیں چھڑا چھڑا کر بھاگیں گے۔ ان پر کاٹھیاں پڑی ہوں گی اور عورتیں اپنے دوپٹوں کے ساتھ ان کے چہروں سے گردو غبار جھاڑیں گی۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑوں کو وہیں سے داخل کرو جہاں سے حسان رضی اللہ عنہ نے داخل ہونے کا ذکر کیا ہے۔(یعنی کَدَاء سے)۔
جب لوگوں میں اطمینان ہوا تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر بیت اللہ تشریف لائے اور سواری ہی پر سات چکر لگائے۔ جب بھی حجراسود کے پاس سے گزرتے، اپنی چھڑی کے ساتھ اسے چھو لیتے۔ اس وقت حرمِ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے جنھیں سیسے کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔ آپ انھیں اپنی چھڑی سے مارتے اور فرماتے تھے:
وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا
’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔‘‘ (بنی اسرآئیل 81:17۔)
بت چہرے کے بل گرتے جارہے تھے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اس وقت بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساتھ بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ رسول اللہﷺکے حکم سے ان سب کو منہ کے بل گرادیا گیا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ جناب رسول اللہﷺمکہ میں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے بتوں کی موجودگی میں کعبے میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ آپ کے حکم سے ان کو نکال دیا گیا۔ جب سیدنا ابراہیم و اسماعیل کے بت نکالے گئے تو ان کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو ہلاک کرے ، اللہکی قسم! انھیں علم ہے کہ ان دونوں شخصیات نے کبھی تیروں کے ساتھ قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔‘‘
پھرآپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اورکونوں میں کھڑے ہوکر تکبیریں پڑھتے رہے۔ لیکن آپ نے اس میں نماز ادا نہیں فرمائی۔جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ نے اس میں نماز ادا فرمائی تھی جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرسے مروی حدیث میں ہے۔ صحیح البخاري: 1599۔
جب نبیﷺنے کعبے میں نماز ادا فرمائی، بیت اللہ کے اندر چکر لگالیا، اس کے کونوں میں تکبیرات پڑھ لیں اور نعرۂ توحید بلند فرمادیا تو بیت اللہ کا دروازہ کھلنے پر آپ نے دیکھا کہ مسجد قریش سے بھر چکی تھی جو صفوں میں بیٹھے اس انتظار میں تھے کہ آپ ان سے کیا سلوک فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بیت اللہ کے دروازے کے دونوں بازئووں کو پکڑ کر ارشاد فرمایا:
’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلے نے سب لشکروں کو شکست دی۔ خبردار! ہر قسم کا فخر، مالی اور نسبی امتیاز جن کے دعوے کیے جاتے ہیں، آج میرے پائوں تلے ہیں سوائے بیت اللہ کی خدمت اورحاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کے۔ خبردار! اگر کسی کو کوڑے یا لاٹھی کے ساتھ غلطی سے ماردیا جائے تو قاتل پر سخت دیت لاگو ہوگی یعنی سو اونٹ جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ بھی ہوں گی۔‘‘
اے قریش! اللہ تعالیٰ نے تمھارا جاہلی تکبر اور آبائی فخر ختم کردیا۔ سب لوگ آدمعلیہ السلام کیاولاد ہیں اور سیدنا آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔‘‘(الحجرات 13:49۔)
پھر فرمایا: ’’اے قریش! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تم سے کیسا سلوک کروں گا؟‘‘
وہ کہنے لگے: ’’یقینا آپ اچھا سلوک کریں گے کیونکہ آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’میں تم سے وہی الفاظ کہتا ہوں جو سیدنا یوسفuنے اپنے بھائیوں سے فرمائے تھے:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ … اِذْھَبُوْا فَأَنْتُم الطُّلَقَائُ
’’آج تمھیں کوئی ملامت نہ ہو گی۔‘‘…’’جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘
پھر رسول اللہﷺ نے کعبے کی چابی عثمان بن طلحہ کو واپس کردی جو پہلے آپ نے ان سے منگوا لی تھی۔
فتح مکہ کے نتائج
فتح مکہ کے متعدد نتائج تھے:
1 مکہ مکرمہ اب کفار کی دسترس سے نکل کر مسلمانوں کی عملداری میں آگیا تھا، چنانچہ اس طرح حنین اور طائف میں شرک کے گڑھ کا خاتمہ کرنے اور پھر اس کے بعد سارے جہان سے اسے ختم کرنے کا موقع میسر آگیا۔
2 جزیرۃ العرب میں مسلمان سب سے بڑی قوت بن کر ابھرے۔ اور فتح مکہ کے ساتھ ہی رسول اللہﷺکی امید بَر آئی کہ قریش کو اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ مسلمان جزیرۃ العرب میں ایک ایسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے جس کے سامنے کوئی قبائلی قوت ٹھہر نہ سکتی تھی، جبکہ اس میں اتنی قوت تھی کہ سارے عرب کو اسلام کے پرچم تلے جمع کر لے اور آس پاس کے علاقوں تک رسائی حاصل کرے۔ تاکہ ظلم کی حکومتوں کو مٹایا جاسکے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو آزادی سے ہمکنار کیا جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہو کر اس اکیلے معبود کی عبادت کریں۔
3 اس فتح کے دینی، سیاسی اور معاشرتی اثرات تھے۔ جو شخص بھی اس مبارک فتح کو گہری نظر سے دیکھے گا اسے وہ اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے۔ معاشرتی اثرات تو اس طرح سامنے آئے کہ رسول گرامیﷺنے لوگوں سے انتہائی نرمی کا سلوک کیا اور ان کی راہنمائی کی تاکہ ان کی خود اعتمادی بحال ہو اور جس نئی صورتِ حال نے ان کے شہر پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اس پر بھی انھیں یقین آجائے۔
رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ چھوڑتے وقت حضرت معاذ بن جبل کو یہیں رکھا تھا تا کہ وہ نماز پڑھائیں اور دین کے مسائل بتائیں۔
رہے سیاسی اقدامات تو رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اَسِید کو امیر مقرر فرمایا تاکہ وہ لوگوں میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں، کمزور کو اس کا حق دلائیں اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد و حمایت کریں۔¢
فتح مکہ کے دینی اثرات یوں مرتب ہوئے کہ فتح مکہ اور اس شہر کے اسلامی قلمرو میںشامل ہونے سے تمام عرب کو یقین آ گیا کہ اسلام ہی (انسانوں کے لیے) اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے، چنانچہ اب وہ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
4 مومنوں کو باوقار جگہ دینے کے متعلق اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا۔ تمام مراحل طے کر لیے گئے۔ اور اس کے لیے اہل ایمان نے گراں قدر قربانیاں دے کر تمام شرائط پوری کر دی تھیں، مثلاً: آزمائش کا سامنا کرنا، مزاحمت کا طریقہ اختیار کرنا، رفتہ رفتہ استحکام اور قوت حاصل کرنا، دلوں میں انقلاب برپا کرنا اور تمام اسباب اختیار کر لینا
0 Comments