پاکستان میں مطالعے کی صورت حال افسوس ناک حد تک خراب ہے۔ کتاب سے ہمارے تعلق کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہم پانچ ہزار روپے کے جوتے کو سستا اور دوسو روپے کی کتاب کو مہنگا کہتے ہیں۔ ہم لاکھوں اور کروڑوں روپے کے گھر بناتے ہیں اور ان میں زندگی کی تمام ضروریات کو جمع کرتے ہیں مگر ہمارے اتنے شاندار اور قیمتی گھروں میں کتب خانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں مطالعے کا رحجان فنا ہو گیا ہے۔ ملک میں مطالعہ کرنے والے لوگ موجود ہیں مگر یہ لوگ ایک اقلیت ہیں اور یہ اقلیت مزید سکڑ رہی ہے۔ تاہم مطالعے کی صورت حال کا ایک حوصلہ افزاء اور سیکولر لوگوں کے نزدیک ’’سنسنی خیز پہلو‘‘ یہ ہے کہ قوم کتابوں اور کتابچوں کی صورت میں جو کچھ پڑھ رہی ہے اس کا 70 فیصد مذہبی مواد یا مذہبی لٹریچر پر مشتمل ہے۔ ایک انگریزی اخبار نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے اردو بازار کے جائزے کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پڑھے جانے والے مذہبی ادب میں سرفہرست سیرت طیبہؐ سے متعلق کتب ہیں۔ دوسرے نمبر پر حدیث اور فقہ سے متعلق کتب ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی قوم کتنی مذہبی ہے۔ پاکستانی قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے معاملے میں جذباتی ہے اور یہ بات درست ہے لیکن کتب بینی کا مذکورہ رحجان ثابت کررہا ہے کہ پاکستانی قوم مذہب کے بارے میں صرف جذباتی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی مذہبیت کو علم سے آراستہ کرنے کی بھی زبردست خواہش رکھتی ہے۔ مذہبی علم سے رغبت جذبے کو شعور میں ڈھالنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ پاکستانی قوم کے مذہبی شعور کا معیاری پہلو یا Qualitative Aspect ہے۔ پاکستانی قوم کے مذہبی شعور کا مقداری پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں شائع ہونے والی کتب کا 70 فیصد مذہب سے متعلق ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں مذہبی کتب زیادہ شائع اور فروخت ہورہی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دینی مدارس کا ایک منظم نظام موجود ہے اور یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن ہم نے مختلف کتب میلوں میں دیکھا ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت مذہبی کتب شدت سے خرید رہی ہوتی ہے اور خریداروں میں دینی مدارس کے طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو ہمارے دینی مدارس کے طلبہ کی بہت بڑی تعداد کی مالی حالت خستہ ہوتی ہے اور وہ خرید کر کتب پڑھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس سلسلے میں یہ قیاس زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی کتب کے زیادہ خریدار عام لوگ ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ دینی کتب کے مطالعے میں دینی کتب کی کم قیمتوں کا بھی حصہ ہوتا ہے اور دینی کتب کی کم قیمتوں کا راز یہ ہے کہ وہ عام کتابوں کی نسبت زیادہ بڑی تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔
مذکورہ اخبار کی رپورٹ میں یہ بات تقریباً ’’انکشاف‘‘ کا درجہ رکھتی ہے کہ مذہبی کتب میں سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کا تعلق سیرت طیبہؐ سے ہے۔ سیرت طیبہؐ سے مسلمانوں کے تعلق کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو رسول ؐاللہ سے گہری عقیدت ہے اور عقیدت کا تعلق جان نثاری سے ہوتا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں سیرتؐ سے متعلق کتب کی بڑے پیمانے پر فروخت سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ عقیدت اور یاد کی سطح پر رسول اکرمؐ کی ذات سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری جانب اس صورت حال سے معلوم ہو رہا ہے کہ اگرچہ ہمارے معاشرے میں سیرت طیبہؐ کی اتباع کم ہے مگر اتباع کی خواہش بہرحال موجود ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو سیرتؐ سے متعلق کتب بڑے پیمانے پر فروخت نہیں ہوسکتی تھیں اور یہ سیرت طیبہؐ سے ہمارے تعلق کا دوسرا پہلو ہے۔
رپورٹ کے مطابق صحابہ کرام، مسلم جرنیلوں، مسلم، سائنسدانوں اور علماء کے بارے میں شائع ہونے والی کتب بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ اس اطلاع سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے پڑھے لکھے طبقے کے اندر کچھ نہ کچھ تہذیبی اور تاریخی شعور بھی پایا جاتا ہے اور وہ ہماری روایت میں مذہب اور تہذیب نیز مذہب وتاریخ کے رشتے سے آگاہ ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر کی ملت اسلامیہ کا یہ وصف خاص ہے کہ اس نے مسلمانوں کی تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کیا اور اس نے دوسرے خطے کے مسلمانوں کے تاریخی تجربے کو بھی پوری امت کا تجربہ سمجھا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال خلافت تحریک ہے۔ ترکی عربوں کا پڑوس ہے اور اسلام کا سورج عالم عرب سے طلوع ہوا تھا مگر جس وقت ترکی میں خلافت کا زوال ہورہا تھا اور پورا عالم عرب سویا پڑا تھا اس وقت برصغیر کے مسلمان نہ صرف یہ کہ بیدار تھے بلکہ وہ خلافت کو بچانے کے لیے ایک بڑی تحریک برپا کیے ہوئے تھے۔ یہ تحریک خلافت کو بچا نہیں سکتی تھی مگر برصغیر کی ملت اسلامیہ نے خلافت کے سلسلے میں اپنے رب کے حضور اپنے محبت اور جذبے کی گواہی پیش کردی۔ اگرچہ برصغیر کی ملت اسلامیہ نے برصغیر میں ایک جداگانہ تہذیبی تجربہ خلق کیا مگر برصغیر کی ملت کے انکسار کا یہ عالم ہے کہ وہ آج بھی اپنے تہذیبی تجربے کے سلسلے میں سند کے لیے عالم عرب کی طرف دیکھتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقے میںاپنی تہذیب اور تاریخ سے دلچسپی برصغیر کی ملت اسلامیہ کی طویل تاریخ ہی کا تسلسل ہے اور اس تسلسل کی موجودگی پر جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اوراد و وظائف کی کتب لاکھوں کی تعداد میں شائع کرکے مفت تقسیم کراتے ہیں۔ اورادو وظائف سے معاشرے کا شغف اس کی مذہبیت ہی کا ایک پہلو ہے۔ اس پہلو کا معاملہ یہ ہے کہ اورادو وظائف دین کی کلیت کا حصہ ہیں اور اگر انہیں دین کے جزو کے طور پر اختیار کیا جائے تو وہ فرد اور معاشرے کی دین داری میں اضافہ کا سبب ہوتے ہیں لیکن اگر معاشرہ اورادو وظائف کو کُل دین بنانے پر تل جائے تو یہ بات دین کی روح اور اس کی منشا کے منافی ہے۔ ہمارے معاشرے کی مذہبیت کا سب سے کمزور پہلو یہی ہے کہ ہمارے دین دار افراد کی بڑی تعداد دین کے پوری زندگی پر اطلاق کی قائل نہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ دین عقاید، عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے اور اس کا سیاست و ریاست علوم و فنون اور اس سے آگے بڑھ کر دین کی بنیاد پر ایک نیا تاریخی اور تہذیبی تجربہ خلق کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن معاشرے میں دین داری اور دینی ادب سے لوگوں کا شغف ایک بہت بڑی اطلاع ہے کیونکہ اس اطلاع سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اپنی نہاد میں ایک مذہبی معاشرہ ہے۔ صرف اس معاشرے کا تناظر بدلنے یا اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
0 Comments