Hazrat Ayesha (R) Life and History

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Hazrat Ayesha (R) Life and History

امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا. عائشہ نام، صدّیقہ اور حمیرہ لقب، امّ عبداللہ کنیت،قریش کے خاندان بنو تمیم سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے: عائشہ بنت ابی بکر صدّیق بن ابی قحافہ بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مُرّہ بن کعب بن لُؤیّ۔ والدہ کا نام امّ رومان بنت عامر تھا اور وہ جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی کے چار سال بعد ماہ شوّال میں پیدا ہوئیں۔ ان کا زمانہ طفولیت صدّیق اکبر جیسے جلیل القدر باپ کے زیر سایہ بسر ہوا، وہ بچپن ہی سے بیحد ذہین اور ہوش مند تھیں اور اپنے بچپن کی تمام باتیں انہیں یاد تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی دوسری صحابیہ یا صحابی کی یادداشت اتنی اچھی نہ تھی۔ بچپن میں ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گڑیوں سے کھیل رہی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے۔

 ننھی عائشہ کی گڑیوں میں ایک پردار گھوڑا بھی تھا۔ حضورﷺ نے پوچھا: ’’ عائشہ یہ کیا ہے؟‘‘ جواب دیا: ’’گھوڑا ہے۔‘‘ حضورﷺ نے فرمایا گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بے ساختہ کہا: ’’ کیوں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے تو پر تھے۔‘‘ حضورﷺ نے یہ جواب سن کر تبسم فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت ’’ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّo (سورۃ القمر:۴۶) مکہ میں نازل ہوئی تو اس وقت حضرت عائشہ کھیل کود میں مشغول تھیں۔ حضور ﷺ کے نکاح میں آنے سے پہلے حضرت عائشہ کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے ( یا بروایت دیگر خود جبیر بن مطعم) سے ہوئی تھی مگر ان لوگوں نے یہ نسبت اسلئے فسخ کردی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خاندان مسلمان ہو چکے تھے۔اس کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کی تحریک پر حضورﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کیلئے پیغام بھیجا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺ کے منہ بولے بھائی تھے تعجب سے پوچھا: ’’ کیا بھائی کی بیٹی سے نکاح ہو سکتا ہے؟‘‘ خولہ رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’ ابو بکر میرے دینی بھائی ہیں اور ایسے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔‘‘ جناب صدیق اکبر کیلئے اس سے بڑھ کر خوشی کی کون سی بات تھی کہ ان کی بیٹی رحمتہ اللعالمین کے نکاح میں آئے۔ چنانچہ فوراً راضی ہو گئے۔ چنانچہ 6 سال کی عمر میں حضرت عائشہ ہجرت سے تین سال( یا بروایت دیگرایک سال) قبل ماہ شوّال میں رسول کریم ﷺ کے حبالہ نکاح میں آگئیں۔حضرت ابو بکر صدیق نے خود نکاح پڑھایا۔ پانچ سو درہم حق مہر مقرر ہوا۔ ایک مرتبہ شوّال کے مہینے میں عرب میں طاعون کی خوفناک وبا پھیلی تھی جس نے ہزاروں گھروں کو ویران کر دیا تھا۔ اس وقت سے شوّال کا مہینہ اہل عرب میں منحوس سمجھا جاتا تھا اور وہ اس مہینے میں خوشی کی تقریب کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی شوال میں ہوا اور رخصتی بھی چند سال بعد شوال ہی میں ہوئی۔ اس وقت سے ماہ شوال کی نحوست کا وہم لوگوں کے دلوں سے دور ہوا۔ حضرت عائشہ سے نکاح کی بشارت حضورﷺ کو خواب میں ہو چکی تھی۔ آپ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ریشم میں لپٹی ہوئی کوئی چیز آپ ﷺ کو دکھا رہا ہےاور کہتا ہے ’’ یہ آپ کی ہے۔‘‘آپ ﷺ نے کھولا تو حضرت عائشہ تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نہایت سادگی سے ہوا۔ وہ فرماتی ہیں: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرمایا تو میں اپنی ہمجولیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ مجھے اس نکاح کا حال تک معلوم نہ ہوا تاآنکہ میری والدہ نے مجھے گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیدائشی مسلمان تھیں، ان سے روایت ہے کہ ’’ جب میں نے اپنے والدین کو پہچانا انہیں مسلمان پایا۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر روز اول سے کفرو شرک کا سایہ تک نہ پڑا۔ سنہ ۱۳ بعد بعثت میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیّت میں ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لیگئے۔مدینہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن حارثہ، ابو رافع اور عبداللہ بن اریقط رضی اللہ عنہم کو اپنے اہل و عیال لانے کیلئے مکے بھیجا۔ واپسی پر حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ حضرت فاطمہ الزّہرا، حضرت امّ کلثوم، حضرت سودہ بنت زمعہ، امّ یمن، اور اسامہ بن زید تھے۔ اور عبداللہ بن اریقط کے ساتھ عبد اللہ بن ابی بکر، امّ رومان، عائشہ صدیقہ، اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ تھیں۔ مدینہ پہنچ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا محلّہ بنو حارث بن خزرج میں اپنے والد محترم کے گھر اتریں۔ مدینہ کی آب و ہوا شروع شروع میں مہاجرین کو موافق نہ آئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی نہایت تندہی سے تیمارداری کی جب وہ صحتیاب ہوئے تو خود بیمار ہو گئیں۔مرض کا حملہ اتنا شدید تھا کہ سر کے بال گر گئے تاہم جان بچ گئی۔ جب صحت بحال ہوئی تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! عائشہ کو آپ رخصت کیوں نہیں کروا لیتے‘‘۔ فرمایا: ’’ فی الحال میرے پاس مہر نہیں ہے۔‘‘ صدیق اکبر نے اپنے پاس سے ۵۰۰ درہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور قرض حسنہ پیش کئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالئے اور وہی حضرت عائشہ کے پاس بھیج کر انہیں شوّال ۱ ہجری( یا بروایت دیگر ۲ ہجری) میں رخصت کرا لیا۔ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال کی تھی۔ بعض جدید سیرت نگار اس طرف گئے ہیں کہ رخصتی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سترہ برس کے لگ بھگ تھی۔ان کے اپنے دلائل ہیں۔ سنہ ۳ ہجری میں غزوہ احد پیش آیا جب ایک اتفاقی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو مدینہ سے حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت صفیہ بنت عبد المطلب، سیّدہ فاطمہ الزّہرا، رضی اللہ عنہما اور دوسری خواتین اسلام دیوانہ وار میدان جنگ کی جانب لپکیں۔ وہاں پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامت دیکھا تو سجدہ شکر بجا لائیں۔ ان سب نے مل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو دھویا اور پھر مشکیزے سنبھا ل کر زخمیوں کو پانی پلانا شروع کیا۔ جب دوسرے صحابہ کرام جو ادھر ادھر منتشر تھے حضور کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے تو مدینہ واپس تشریف لائیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بعض دوسری خواتین کے ہمراہ مدینہ منوّرہ ہی سے لشکر اسلام کے ساتھ میدان جنگ میں گئی تھیں۔ 

صحیح بخاری میں ہے کہ جب مسلمانوں میں اضطراب برپا تھا تو وہ اپنی پیٹھ پر مشک لاد لاد کر زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔امام احمد بن حنبل نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ خندق میں بھی قلعہ سے باہر نکل کر نقشہ جنگ دیکھا کرتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری لڑائیوں میں شریک ہونے کی اجازت مانگی تھی لیکن نہ ملی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ وہ رات کو اٹھ کر قبرستان چلی جایا کرتی تھیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فطری طور پر نہایت دلیر اور نڈر تھیں۔ حضرت عائشی رضی اللہ عنہا کی حیات مبارکہ میں چار واقعات بے حد اہم ہیں۔ اِفک، ایلا، تحریم اور تخییر۔ (۱)اِفک کا واقعہ یوں پیش آیا کہ غزوہ بنو مصطلق کے سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔راستے میں ایک جگہ رات کو قافلے نے قیام کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رفع حاجت کیلئے پڑاؤ سے دور نکل گئیں۔ اہاں ان کے گلے کا ہار جو وہ اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مانگ کر لائی تھیں، بے خبری کے عالم میں گر گیا۔ واپسی پر پتہ چلا تو بہت مضطرب ہوئیں، پھر اسی سمت واپس گئیں اور خیال کیا کہ قافلے کے چلنے سے پہلے ہار ڈھونڈ کر واپس پہنچ جائینگی۔جب ہار ڈھونڈ کر واپس پہنچیں تو قافلہ جا چکا تھا۔ بہت گھبرائیں، ناتجربہ کاری کی عمر تھی، چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئیں۔ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہا ایک صحابی کسی انتظامی ضرورت کے سلسلے میں قافلہ سے پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ کو پہچان لیا کیونکہ بچپن میں ( یا حکم حجاب سے پہلے) انہیں دیکھا ہوا تھا۔ ان سے پیچھے رہ جانے کا سبب پوچھا، جب واقعہ معلوم ہوا تو ہمدردی کا اظہار کیا پھر امّ المؤمنین کو اونٹ پر بٹھا کر عجلت سے قافلے کی جانب روانہ ہوئے اور دوپہر کے وقت قافلے سے جا ملے۔ مشہور منافق عبداللہ بن ابئ کو جب اس واقعے کا پتہ چلا تو اس نے حضرت صدیقہ کے متعلق مشہور کردیا کہ اب وہ باعصمت نہیں رہیں۔چند سادہ لوح مسلمان بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ۔

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قدرتاً تشویش پیدا ہوئی اور حجرت عائشہ صدیقہ بھی ناحق کی بدنامی کے صدمے سے بیمار ہو گئیں۔ اس وقت غیرت الٰہی جوش میں آئی اور آیات برأت نازل ہوئیں۔ لَوْلا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ ۔( سورۃ النور: ۱۲) ترجمہ: اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔ آیت برأت کے نزول سے دشمنوں لے منہ سیاہ ہو گئے اور سادہ لوح مسلمان جو غلط فہمی کا شکار تھے سخت شرمندہ ہوئے۔ انہوں نے نہایت عاجزی سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے والدین کو قدرتاً بیحد خوشی ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔ انہوں نے فرمایا میں صرف اپنے اللہ کی شکر گزار ہوں اور کسی کی ممنون نہیں۔ (۲)واقعہ تحریم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد ازواج مطہّرات کے پاس تھوڑٰ دیر کیلئے تشریف لیجاتے، ایک دفعہ حضرت زینب بنت جحش کے پاس زیادہ دیر ہو گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رشک ہوا، انہوں نے تجسس کیا تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کے ہاں شہد کھایا ہے جو انہیں کسی نے تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے اور تمہارے گھر تشریف لائیں تو کہنا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کا شہد کھایا ہے۔ ( مغافیر ایک پھول ہوتا ہے جسے شہد کی مکھی چوستی ہے اس میں قدرے بو ہوتی ہےاور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی بو ناپسند تھی) جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ زینب نے شہد پلایا ہے تو تم کہنا شاید یہ شہد عرفط کی مکھی کا ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے تشریف لائے تو یہی سوال و جواب ہوئے پھر حضرت صفیہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے بھی یہی گفتگو دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک میں تکدّر پیدا ہوا۔ چنانچہ جب آپ اگلے روز زینب رضی اللہ عنہا کے تشریف لے گئے اور انہوں نے حسب معمول شہد پیش کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ مجھے اس کی ضرورت نہیں میں آئندہ شہد نہیں کھاؤں گا۔‘‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔ (سورۃ التحریم: ۱) ترجمہ: اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کیلئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(0) واقعہ ایلا: ازواج مطہّرات کیلئے غلّہ اور کھجور کی جو مقدار مقرر تھی وہ انکی ضروریات کیلئے کافی نہ تھی اور وہ تنگدستی سے گزراوقات کرتی تھیں۔ ادھر اموال غنیمت اور سالانہ محاصل میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ ازواج مطہّرات نے اپنے مقرر ہ گزارہ میں اضافہ کی خواہش کی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو سمجھا کر اس مطالبے سے باز رکھا لیکن دوسری ازواج اس مطالبے پر قائم رہیں۔ اتفاق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں گھوڑے سے گر پڑے اور پہلوئے مبارک میں چوٹ لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے متصل ایک بالا خانے پر قیام فرمایا اور عہد کیا کہ ایک مہینے تک ازواج مطہّرات سے نہیں ملیں گے۔ 

منافقین ایسے موقعے کی تلاش میں رہتے تھے، انہوں نے مشہور کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم یہ خبر سن کر سخت رنجیدہ ہوئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھرّی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور جسم اطہر پر بان کے نشان بن گئے تھے۔ فاروق اعظم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! کیا آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی؟‘‘ فرمایا ’’ نہیں‘‘۔ جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ خوشخبری تمام لوگوں کو سنا دی ۔ 

اس پر تمام مسلمانوں میں اور ازواج مطہّرات میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں ایک ایک دن گنتی تھی، انتیسویں دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانے سے اتر کر سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے ۔ میں نے عرج کی : ’’ یا رسول اللہ! آپ نے ایک مہینہ کا عہد فرمایا تھا اور آج انتیس دن ہوئے ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’ مہینہ کبھی انتیس کا بھی ہوتا ہے۔ (۴)واقعہ تخییر: واقعی ایلا کے بعد ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’ عائشہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اس کا جوا ب اپنے والدین سے پوچھ کر دو تو بہتر ہوگا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! وہ کیا بات ہے؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ احزاب کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا ۔(سورۃ الاحزاب: ۲۹۔۲۸) ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت ِ دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کردوں۔(۲۸) اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو( یقین مانو) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کیلئے اللہ نے بہت زبردست اجر چھوڑ رکھے ہیں۔(۲۹) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ صل اللہ علہ وسلم! اس میں والدین کے مشورے کی کیا ضرورت ہے میں تو اللہ اور اللہ کا رسول اور آخرت کا گھر اختیار کرتی ہوں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب پسند فرمایا۔ یہی بات جب دوسری ازواج سے پوچھی تو انہوں نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔ سیّد الانام کو حضرت عائشہ بیحد محبوب تھیں۔ مسند ابی داؤد میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’ اے باری تعالیٰ یوں تو میں سب بیویوں سے برابر کا سلوک کرتا ہوں مگر دل میرے بس میں نہیں کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو زیادہ محبوب رکھتا ہے یا اللہ اسے معاف فرمانا۔‘‘ رسول کریم صلی اللہ علہ وسلم طہارت میں بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے اور اپنی مسواک بار بار دھلوایا کرتے تھے ۔ اس خدمت کی انجام دہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے سپرد تھی۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جان چھڑکتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے، جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھلی اور حضور کو نہ پایا تو سخت پریشان ہوئیں، دیوانہ وار اٹھیں اور ادھر ادھر اندھیرے میں ٹٹولنے لگیں۔ آخر ایک جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ملا، دیکھا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم سر بسجود یاد الٰہی میں مشغول ہیں، اس وقت انہیں اطمینان ہوا۔ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کمبل اوڑھ کر مسجد میں تشریف لائے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! اس پر دھبے نظر آ رہے ہیں۔‘‘ آپ نے اس کو غلام کے ہاتھوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کٹورے میں پانی منگوایا اورخود اپنے ہاتھ سے داغ دھوئے۔ اس کے بعد کمبل خشک کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس بھیجا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے ا احرام کھولتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جسم مبارک میں خوشبو لگاتی تھیں۔ ایک مرتبہ سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار کھو گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی تلاش میں چند صحابہ کو بھیجا۔ وہ اسکی تلاش میں نکلے تو راستے میں نماز کا وقت آگیا، دور دور تک پانی نہیں تھا اسلئے لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی۔ واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ماجرا بیان کیا۔ اس وقت آیت تیمّم نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہت بڑی فضیلت سمجھا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ امّ المؤمنین! اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے آپ کو کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا جس سے اللہ نے آپ کو نکلنے کا راستہ نہیں بتایا اور مسلمانوں کیلئے وہ ایک برکت بن گیا۔

Hazrat Ayesha (R)  Life and History

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments