’’مجھے بھی آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی‘‘ اس نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا‘ میں نے دوبارہ پوچھا ’’لیکن کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی‘ تم کام یابی کے کسی بھی فارمولے پر پورے نہیں اترتے‘ تعلیم واجبی‘ عقل اوسط درجے کی‘ کاروباری سینس نہ ہونے کے برابر‘ حلیہ اور پرسنیلٹی بھی بے جان اور سونے پر سہاگا تم اپنے کاروبار کو بھی وقت نہیں دیتے‘ ہفتہ ہفتہ دفتر نہیں جاتے لیکن اس کے باوجود تمہیں کبھی نقصان نہیں ہوا۔ سیلاب میں بھی سارے شہر کے گودام پانی میں ڈوب جاتے ہیں مگر تمہارے گودام میں پانی داخل نہیں ہوتا اور اگر داخل ہو جائے تو یہ تمہارے مال کو چھوئے بغیر چپ چاپ نکل جاتا ہے‘ تم لوہا بیچنا شروع کر دو تو وہ چاندی کے برابر ہو جاتا ہے اور حتیٰ کہ تمہارے نلکے کا پانی بھی منرل واٹر ہے۔ آخر اس کے پیچھے سائنس کیا ہے؟‘‘ میری تقریر سن کر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں بھی اکثر اپنے آپ سے یہ پوچھتا ہوں لیکن یقین کرو مجھے زندگی میں ایک واقعے کے سوا کوئی نیکی‘ اپنی کوئی صفت نظر نہیں آتی‘ شاید اللہ کے کرم کی یہی وجہ ہو‘‘ وہ رکا اور بولا ’’میں نے نویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا‘ میں شروع میں والد کے ساتھ فروٹ کی ریڑھی لگانے لگا‘ والد کا انتقال ہو گیا تو میں ایک آڑھتی کی دکان پر منشی بھرتی ہو گیا۔
زندگی بے مقصد‘ بے رنگ اور الجھی ہوئی تھی‘ دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی تھی لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ میں ایک دن اپنے ایک دوست کی کریانے کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا‘ وہاں درمیانی عمر کی ایک خاتون آئی‘ اسے دیکھتے ہی میرا دوست اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگا‘ وہ اس سے پرانے پیسے مانگ رہا تھا جب کہ وہ مزید سودے کے لیے منتیں کر رہی تھی۔ عورت مجبور دکھائی دے رہی تھی جب کہ میرا دوست اس کے ساتھ غیر ضروری حد تک بدتمیزی کر رہا تھا‘ میں ان کی تکرار سنتا رہا‘ خاتون جب مایوس ہو کر چلی گئی تو میں نے اپنے دوست سے ماجرا پوچھا‘ اس کا جواب تھا‘ یہ بیوہ ہے‘ اس کا خاوند سعودی عرب میں کام کرتا تھا‘ خاندان خوش حال تھا لیکن پھر خاوند روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا اور اس کی زمین جائیداد پر اس کے دیوروں نے قبضہ کر لیا۔ اس کے پاس اب چھوٹے سے گھر کے علاوہ کچھ نہیں‘ دو بچیاں ہیں‘ وہ اسکول جاتی ہیں‘ یہ ان پڑھ اور بے ہنر عورت ہے‘ اس کا ذریعہ روزگار کوئی نہیں‘ سعودی عرب سے دو چار ماہ بعد خاوند کی تھوڑی سی پنشن آ جاتی تھی اور یہ اس میں گزارہ کر لیتی تھی مگر اب وہ بھی رک گئی ہے‘ میرے والد صاحب اسے ادھار راشن دے دیتے تھے لیکن یہ بھی اب تھک گئے ہیں لہٰذا میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو میں اس سے اپنے پیسے مانگ لیتا ہوں‘ یہ ہمارا روز کا تماشا ہے‘ تم چھوڑو‘ یہ بتاؤ تم آج کل کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ رکا اور ہنس کر بولا ’’یہ ایک عام سی کہانی تھی‘ ایسے کردار ہر شہر‘ ہر قصبے میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔
آپ کسی کریانہ اسٹور پر چلے جائیں‘ آپ کو ایسے بیسیوں لوگ مل جائیں گے مگر پتا نہیں مجھے کیا ہوا؟ میں نے اپنے دوست سے اس کا پتا لیا‘ اس کے خاوند کا نام پوچھا‘ بازار گیا‘ دو ہفتوں کے لیے کھانے پینے کا سامان خریدا‘ بوری بنائی اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دے دی‘ وہ اپنی چادر سنبھالتے ہوئے باہر آ گئی‘ پانچ اور سات سال کی دو بچیاں بھی اس کے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئیں‘ میں نے سودا ان کی دہلیز پر رکھا اور ادب سے عرض کیا‘ میرے والد ارشد صاحب مرحوم کے دوست تھے۔ انھوں نے آپ کے خاوند سے کچھ رقم ادھار لی تھی‘ وہ مجھے قرض کی ادائیگی کا حکم دے گئے ہیں‘ میرے حالات سردست اچھے نہیں ہیں اور میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں کر سکتا‘ میری تنخواہ کم ہے‘ آپ اگر مجھے اجازت دیں تو میں آپ کو پندرہ دن بعد گھر کا سودا دے دیا کروں گا‘ اس سے میرا قرض بھی اتر جائے گا اور آپ کے گھر کا نظام بھی چلتا رہے گا‘ وہ عورت اور اس کی بچیاں حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں‘ میں نے انھیں سلام کیا اور واپس آ گیا‘ میں اس کے بعد انھیں ہر پندرہ دن بعد راشن پہنچانے لگا‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اس سے پوچھا’’تم خود غریب تھے‘ تم ان کے راشن کے لیے رقم کہاں سے لاتے تھے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تم شاید یقین نہیں کرو گے میں نے اپنی جیب سے صرف وہی سودا خریدا تھا‘ پندرہ دن بعد ان کا سودا فری ہو چکا تھا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولا ’’میں اگلے دن دکان پر گیا تو میرے مالک نے مجھے مشورہ دیا‘ ہماری دکان کا تھڑا خالی ہوتا ہے۔ تمہارا کام شام کے وقت اسٹارٹ ہوتا ہے اور وہ بھی تم گھنٹے میں ختم کر دیتے ہو اور سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہو‘ میں تمہیں چاول اور دالیں دے دیتا ہوں‘ تم یہ تھڑے پر رکھو اور پانچ پانچ‘ دس دس کلو بیچ دو‘ تمہیں اس سے فائدہ ہو جائے گا‘ غلہ منڈی میں تھوک کا کام ہوتا تھا‘ ہمارے پاس پانچ دس کلو کے بے شمار خریدار آتے تھے لیکن ہم ان سے معذرت کر لیتے تھے‘ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا‘ میں اپنے مالک سے دالیں‘ چاول اور چینی خریدتا تھا۔ اس کے پانچ پانچ اور دس دس کلو کے پیکٹ بناتا تھا اور کھڑے کھڑے بیچ دیتا تھا‘ آپ یقین کریں دو ہفتوں میں میری آمدنی چار پانچ گنا بڑھ گئی اور میں پندرہ دن بعد جب اس بیوہ کے گھر گیا تو میرے پاس سودا بھی ڈبل تھا اور میری جیب بھی ٹھیک ٹھاک بھاری تھی‘ میں نے ایک ماہ بعد اسے بچیوں کی فیس‘ کپڑوں اور جوتوں کے لیے بھی رقم دینا شروع کر دی‘ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں دو سال بعد اس دکان کا مالک تھا جس پر میں منشی ہوتا تھا‘ وہ دکان بعدازاں پورے کمپلیکس میں تبدیل ہو گئی اور میں دکان دار سے سیٹھ بن گیا۔
میں منڈیوں میں اجناس سپلائی کرنے لگا اور آج میں تمہارے سامنے ہوں‘ مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا‘ کیوں نہیں ہوا؟ شاید اس کی وجہ وہ عورت اور اس کی دو بچیاں تھیں‘ وہ بچیاں بڑی ہوئیں‘ ایک ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بن گئی‘ دوسری نے بی اے کے بعد بیوٹی پارلر بنا لیا‘ وہ اب چودہ پندرہ سیلون چلا رہی ہے جب کہ آنٹی ایک یتیم خانہ اور بیوہ گھر چلا رہی ہے‘‘ وہ ایک بار پھر رک گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’تم نے اس کے بعد کیا کیا؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’مجھے نیکی کا چسکا پڑ گیا‘ میں نے اس کے بعد اس جیسے گھرانوں کو راشن دینا اور فیملیز کی مدد کرنا شروع کر دیا۔ میں پہلے اپنی کمائی کا دس فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا اور یہ اب آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے 60 فیصد ہو چکا ہے‘ میرے منافع کا 60 فیصد اللہ کی راہ پر خرچ ہوتا ہے‘ میں اپنی ذات کے لیے صرف 40 فیصد رکھتا ہوں لیکن یہ 40 فیصد بھی بے انتہا ہے۔ میں روز صبح اٹھتا ہوں اور آنٹی کو دعا دیتا ہوں‘ وہ اگر اس دن میری زندگی میں نہ آتی تو میں شاید آج بھی کسی دکان پر منشی ہوتا اور سات آٹھ ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہوتا‘ وہ آئی اور اس نے مجھے اس راستے پر ڈال دیا جس پر کام یابی اور خوش حالی کے پُل ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
مجھے یقین ہے آپ کو یہ کہانی فرضی لگے گی اور آپ یہ سوچ رہے ہوں گے میرے پاس اس قسم کی کہانیاں گھڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیکن آپ یقین کریں یہ کہانی سو فیصد سچی ہے اور یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے‘ دنیا میں ایسی لاکھوں کروڑوں مثالیں موجود ہیں‘ میں اپنے ملک میں ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اللہ سے تجارت کی اور یہ خود بھی ارب پتی ہو گئے اور ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کے لیے بھی زندگی آسان ہو گئی۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ بھی زندگی میں ایک بار ایسا کر کے دیکھ لیں‘ آپ اٹھیں اور کسی بیوہ‘ کسی یتیم کا ہاتھ پکڑ لیں‘ آپ کسی طالب علم کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیں اور آپ اس کے بعد اللہ کا کرم دیکھیں‘ آپ کو اگر اس کے بعد خوش حالی‘ مسرت اور کام یابی نصیب نہ ہو تو آپ اپنا نقصان مجھ سے وصول کر لیجیے گا‘ آپ یقین کریں دنیا میں صرف ایک ہی تجارت ہے اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے۔ دنیا میں صرف ایک اسٹاک ایکسچینج ہے جس کا کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا‘ جو کبھی مندے کا شکار نہیں ہوتی‘ جو کبھی کریش نہیں ہوتی اور وہ ہے اللہ کی اسٹاک ایکسچینج لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ ایک بار اس اسٹاک ایکسچینج میں کھاتا کھول کر دیکھیں‘ آپ کو تجارت کا مزہ آ جائے گا۔
0 Comments