حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت اور پیغام

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت اور پیغام

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں سے انتہائی ممتاز ہستی ہیں۔ ان کی ذات سے منسوب مذہب ''مسیحیت‘‘ کے پیروکار دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد ہیں۔ مسیحی عقیدہ تثلیث اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر چڑھ کے جمیع انسانیت کے گناہوں کے کفارے کو ادا کر دیا ہے۔ اس کے مد مقابل مسلمانوں کے عقائد کتاب وسنت کی بنیاد پر مسیحیوں کے عقائد سے مختلف ہیں۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ سیدہ مریمؑ نہایت نیک اور باعمل خاتون تھیں۔ سیدہ مریمؑ کی والدہ نے اُنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے وقف کو قبول فرماتے ہوئے سیدہ مریمؑ کے لیے روحانی ترقی اور مدارج کے دروازوں کو کھول دیا اور صاحبہ کرامت بھی بنا دیا اور آپ کے پاس بے موسم کے پھل بھی آنے لگے۔ 

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدہ مریم علیہا السلام کو جہانوں کی عورتوں میں سے نہایت بلند مقام عطا فرمایا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 42 میں یوں فرماتے ہیں: ''اور (وہ وقت یاد کرو) جب کہا فرشتوں نے اے مریم! بے شک اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا ہے اور تجھے پاکیزگی عطا کی ہے اور تجھے منتخب کیا ہے جہان کی عورتوں پر (ترجیح دے کر)‘‘۔ اسی پاک دامن خاتون کے یہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ پیدا فرما دیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت یقینا انسانی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر فرماتے ہیں جن میں سے اہم مقام سورہ مریم کا ہے۔ سورہ مریم کی آیت نمبر 16 سے 21 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور ذکر کیجئے کتاب میں مریم کا جب وہ الگ ہوئی اپنے گھر والوں سے ایک جگہ میں مشرق کی جانب۔ پھر اس نے بنا لیا ان کی طرف سے ایک پردہ پھر ہم نے بھیجا اس کی طرف اپنی روح (فرشتے) کو تو اس نے شکل اختیار کی اس کے سامنے ایک کامل انسان کی۔ 

(مریم نے) کہا بے شک میں پناہ چاہتی ہوں رحمان کی تجھ سے اگر ہے تو کوئی ڈر رکھنے والا۔ (فرشتے نے) کہا بے شک میں تو بھیجا ہوا ہوں تیرے رب کا تاکہ میں عطا کروں تجھے پاکیزہ لڑکا۔ (مریم نے) کہا کیسے ہو گا میرے ہاں کوئی لڑکا حالانکہ نہیں چھوا مجھے کسی بشر نے اور نہیں ہوں میں بدکار۔ (فرشتے نے) کہا اسی طرح (ہی ہو گا) تیرے رب نے کہا ہے وہ مجھ سے آسان ہے‘ اور تاکہ ہم بنا دیں اسے ایک نشانی لوگوں کے لیے اور رحمت (بنا دیں) اپنی طرف سے اور ہے (یہ) معاملہ طے شدہ ‘‘۔ سورہ مریم میں ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ اس بات کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ سیدہ مریم علیہا السلام اپنی قوم کی طرف آئیں تو قوم کے لوگوں نے آپ کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی جناب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قوت گویائی عطا فرما دی اور آپ نے اپنی ولادت باسعادت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان فرما دیا۔ 

اس حقیقت کا بیان سورہ مریم کی آیت نمبر 27 سے 31 میں کچھ یوں ہوا: ''پھر وہ لے کر آئی اس کو اپنی قوم کے پاس اُسے اٹھائے ہوئے‘ انہوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ یقینا تو نے کیا ہے کام بہت بُرا۔ اے ہارون کی بہن نہیں تھا تیرا باپ بُرا آدمی اور نہیں تھی تیری ماں بدکار۔ تو اس نے اشارہ کیا اس (بچے) کی طرف‘ وہ کہنے لگے کیسے ہم کلام کریں (اس سے) جو ہے گود میں بچہ۔ (بچے نے) کہا بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے دی ہے مجھے کتاب اور بنایا ہے مجھے نبی اور بنایا ہے مجھے بابرکت جہاں کہیں (بھی) میں ہوں اور اس نے مجھے وصیت کی ہے نماز اور زکوٰۃ کی جب تک میں رہوں زندہ ‘‘۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کی معجزاتی ولادت کی وجہ سے بہت سے لوگ شکوک وشبہات کا شکار ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اس شبہ کو انتہائی خوبصورت انداز میں دور فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 59 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں آدم کی مثال کی طرح ہے (کہ) اس نے پیدا کیا اسے مٹی سے پھر کہا اس کو ''ہو جا‘‘ تو وہ ہو گیا‘‘۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بہت سے معجزات سے نوازا تھا۔ آپ بیماروں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفا یاب ہو جاتے‘ مردوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ کلام کرنا شروع کر دیتے اور آپ لوگوں کو ان کے کھائے ہوئے کھانے اور چھوڑے ہوئے کھانے کے بارے میں بتلا دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان معجزات کو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 49 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''(جب وہ رسول بن کر آئے گا تو کہے گا) کہ بے شک میں یقینا آیا ہوں تمہارے پاس نشانی لے کر تمہارے رب کی طرف سے کہ بے شک میں بناتا ہوں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے جیسی شکل پھر میں پھونک مارتا ہوں اس میں تو وہ بن جاتا ہے (واقعی) پرندہ‘ اللہ کے حکم سے اور میں درست کر دیتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور میں زندہ کرتا ہوں مُردوں کو اللہ کے حکم سے اور میں خبر دیتا ہوں تم کو اس کی جو تم کھاتے ہو اور جو تم ذخیرہ کرتے ہو اپنے گھروں میں بے شک اس میں یقینا نشانی ہے تمہارے لیے اگر ہو تم مومن‘‘۔ ان معجزات کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ آپ علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوئے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے غلو کا راستہ اختیار کیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے اس بات کو بیان فرمایا کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کاحصہ نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 75 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں مسیح بن مریم مگر ایک رسول یقینا گزر چکے ہیں اس سے پہلے بہت سے رسول اور ان کی ماں صدیقہ تھی تھے وہ دونوں کھانا کھاتے ‘ (اے نبی) دیکھ کیسے ہم بیان کرتے ہیں اُن کے لیے واضح دلائل پھر دیکھ (ان دلائل کے باوجود) کیسے پلٹائے جا رہے ہیں‘‘۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 171 میں ارشاد ہوا: ''اے اہل کتاب ! حد سے تجاوز مت کرو اپنے دین میں اور مت کہو اللہ کے بارے میں سوائے حق حقیقت میں مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے ڈال دیا اسے مریم کی طرف اور اس کی طرف سے روح تھے تو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں (پر) اور مت کہو (کہ الٰہ) تین ہیں باز آ جاؤ (اس اعتقاد سے) بہتر ہو گا تمہارے لیے حقیقت میں اللہ اکیلا معبود ہے پاک ہے وہ (اس بات سے) کہ ہو اس کی اولاد ‘‘۔

قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مصلوب ہونے کی بھی نفی کی ہے اور اس بات کو واضح فرما دیا کہ یقینا آپ علیہ السلام کو شہید نہیں کیا گیا تھا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کو زندہ آسمانوں کی طرف اُٹھا لیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا بیان سورہ نساء کی آیت نمبر157‘158 میں یوں فرمایا : اور نہ انہوں نے قتل کیا اسے (عیسیٰ علیہ السلام کو ) اور نہ انہوں نے سولی پر چڑھایا اسے (عیسیٰ علیہ السلام کو) اور لیکن شبہے میں ڈال دیا گیا ان کو اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس میں یقینا شک میں ہیں اس بارے میں نہیں ان کے پاس اس کا کوئی علم سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا انہوں نے اسے (عیسیٰ علیہ السلام کو) یقینا بلکہ اللہ نے اسے اُٹھا لیا اپنی طرف اور ہے اللہ تعالیٰ غالب‘ حکمت والا‘‘۔ احادیث مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قرب قیامت دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر نزول کا ذکر ہے اور آپ کے ہاتھوں دجال کے قتل اور آپ علیہ السلام کے کارہائے نمایاں کی خبر بھی دی گئی ہے۔ 

اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے : مسند احمد میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انبیائے کرام علاتی بھائی ہیں‘ ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے‘ میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا سب سے زیادہ قریبی ہوں‘ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے‘ بیشک وہ نازل ہونے والے ہیں‘ پس ان کو پہچان لینا‘ وہ معتدل قد کے آدمی ہیں‘ ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل ہے‘ ان پر ہلکی زردی کے دو کپڑے ہوں گے‘ ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو‘ حالانکہ نمی (پانی) لگا نہیں ہو گا‘ (یعنی وہ انتہائی چمک دار رنگ کے نظر آ رہے ہوں گے)‘ پس وہ صلیب کو توڑیں گے‘ خنزیر کو قتل کر دیں گے‘ جزیہ ختم کر دیں گے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے‘ پس اللہ تعالیٰ ان کے اُس عہد میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کو ختم کر دے گا‘ اللہ تعالیٰ ان کے ہی زمانے میں دجال کو ہلاک کرے گا‘ زمین پر اتنا امن و امان واقع ہو گا کہ سانپ اونٹوں کے ساتھ‘ چیتے گائیوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چریں گے‘ بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں دیں گے‘ عیسیٰ علیہ السلام زمین میں چالیس سال قیام کریں گے‘ پھر وہ فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کر کے ان کو دفن کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت وپیغام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

Post a Comment

0 Comments