اخلاص، ایثار، بھلائی جوہرِ حیات بغض و عناد، قطع رحمی کا فساد

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

اخلاص، ایثار، بھلائی جوہرِ حیات بغض و عناد، قطع رحمی کا فساد

حضور اقدس ﷺ کے ارشاد عالی کا مفہوم ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق جائز نہیں کہ اچانک ملاقات ہو جائے تو ایک کا منھ ادھر کو اور دوسرے کا اُدھر کو ہو۔ اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ کچھ بندے ایسے ہیں جن کے لیے قیامت کے دن نور کے منبر بچھائے جائیں گے، انبیائے کرامؑ اور شہدا ان پر رشک کریں گے اور وہ خود نبی ہوں گے نہ شہید، عرض کیا گیا: یارسول اﷲ ﷺ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ محض ﷲ کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ حضور اقدس ﷺ کا یہ مبارک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جنّت کے دروازے پیر اور جمعرات کے روز کھولے جاتے ہیں اور ان دنوں میں ایسے لوگوں کی بخشش کی جاتی ہے جو ﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے، البتہ جن دو آدمیوں میں باہم بغض و عناد ہوتا ہے ان کے لیے حکم ہوتا ہے کہ ان کی مغفرت میں انتظار کرو۔ حتی کہ وہ آپس میں صلح کر لیں اور تین دن سے زاید قطع تعلق رکھنے والوں کے اعمال اوپر جاتے ہیں تو وہ واپس لوٹا دیے جاتے ہیں۔

حضرت ابوامامہؓ حضور ﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو ﷲ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے اور اہل زمین پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں۔ بس کافر اور کینہ پرور کے سوا سب کی بخشش ہو جاتی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ پانچ قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (یعنی وہ ثواب سے محروم ہوں گے اگرچہ فرض ان کے ذمے سے ساقط ہو گا) اس عورت کی جس پر اس کا خاوند (کسی شرعی وجہ سے) ناراض ہو۔ اس غلام کی جو آقا کی اطاعت سے بھاگ نکلا ہو۔ اس شخص کی جو قطع تعلقی کی وجہ سے تین دن سے زاید تک مسلمان بھائی سے کلام نہیں کرتا۔ اس شخص کی جو شراب کا عادی ہے۔ اس امام کی جسے مقتدی (کسی شرعی وجہ سے) ناپسند سمجھتے ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ہلکا سا صدقہ بتاؤں جو ﷲ تعالیٰ کو بھی پسند ہے؟ عرض کیا گیا ضرور بتائیے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ جب لوگ باہم قطع تعلق کریں تو ان میں مصالحت کرانا۔

حضرت ابودرداؓ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو نفل نماز روزہ اور صدقہ وغیرہ اعمال سے بھی بڑھ کر ہے؟ عرض کیا گیا ضرور بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا کہ لوگوں میں قطع تعلقی کے وقت مُصالحت کرانا۔ بعض صحابہ کرامؓ سے منقول ہے کہ جو شخص آٹھ باتوں سے عاجز آجائے تو وہ دوسری آٹھ باتیں اختیار کرے، تاکہ ان کی فضیلت پالے، پہلی یہ کہ جو کوئی چاہتا ہے کہ سوئے سوئے ہی نماز تہجد کا ثواب پالے وہ دن کو ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے۔ دوسری یہ کہ جو آدمی چاہتا ہے کہ روزہ رکھے بغیر نفل روزہ کا ثواب حاصل کرے وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے۔ تیسری یہ کہ جو شخص چاہتا ہے کہ علماء کا درجہ حاصل کرے وہ تفکّر اختیار کرے۔ چوتھی یہ کہ جو کوئی گھر بیٹھے ہی نمازیوں اور مجاہدوں کا ثواب چاہتا ہے وہ شیطان سے جہاد کرے۔ پانچویں جو ناداری کے باوجود صدقے کا اجر لینا چاہتا ہے وہ اپنا سیکھا ہوا علم لوگوں کو سکھائے۔

چھٹی یہ کہ جو کوئی حج سے عاجز آنے کے باوجود اس کی فضیلت چاہتا ہے وہ جمعہ کی حاضری کا پابندی سے اہتمام و التزام رکھے۔ ساتویں یہ کہ جو عبادت گزاروں کا درجہ لینا چاہتا ہے وہ لوگوں کی باہم مُصالحت کرائے اور ان میں عداوت اور بغض پیدا نہ کرے۔ آٹھویں یہ کہ جو اَبدال کا درجہ چاہتا ہے وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھے اور اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند ہو۔ قیامت میں جب اولین و آخرین سب جمع ہوں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا کہ فضیلت والے لوگ کہاں ہیں تو لوگوں کی ایک جماعت اٹھے گی اور جنّت کی طرف چل دے گی۔ فرشتے ان کے سامنے آکر پوچھیں گے کہاں جارہے ہو؟ وہ جواب دیں گے جنّت میں۔ فرشتے کہیں گے کیا حساب سے پہلے ہی؟ وہ کہیں گے ہاں حساب سے پہلے ہی۔ فرشتے پوچھیں گے تم کون لوگ ہو؟ وہ جواب دیں گے ہم اہل فضل ہیں۔

فرشتے کہیں گے دنیا میں تمہاری کیا فضیلت تھی؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا تو ہم برداشت کر لیتے، کوئی بُرائی کرتا تو ہم معاف کر دیتے۔ فرشتے کہیں گے داخل ہو جاؤ جنّت میں، جو عمل کرنے والوں کا بہترین ٹھکانا ہے۔ پھر ایک منادی آواز دے گا صبر والے کہاں ہیں تو ایک جماعت اٹھے گی اور جنّت کا رخ کرے گی۔ فرشتے سوال کریں گے کہاں جارہے ہو جواب دیں گے جنّت میں۔ فرشتے کہیں گے کیا حساب کے بغیر ہی؟ وہ کہیں گے ہاں۔ فرشتے پوچھیں کے تم کون لوگ ہو؟ وہ جواب دیں گے ہم صبر والے ہیں۔ وہ سوال کریں گے تم کیا صبر کیا کرتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے اپنے نفسوں کو ﷲ تعالیٰ کی اطاعت پر مجبور کیا اور اس کی نافرمانی سے روکے رکھا۔ تو فرشتے کہیں گے جاؤ، جنّت میں چلے جاؤ کہ وہ عمل کرنے والوں کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔ 

پھر منادی آواز دے گا کہ ﷲ تعالیٰ کے پڑوسی کہاں ہیں؟ اس پر بھی لوگوں کی ایک جماعت اٹھے گی اور جنّت کی طرف چلے گی تو فرشتے پوچھیں گے کہا ں کا ارادہ ہے؟ وہ جواب دیں گے جنّت کا۔ فرشتے کہیں گے کیا حساب سے پہلے ہی؟ وہ کہیں گے ہاں!۔ فرشتے پوچھیں گے تم کون لوگ ہو؟ وہ جواب دیں گے ہم زمین پر ﷲ تعالیٰ کے ہمسایہ اور پڑوسی تھے۔ فرشتے کہیں گے تمہارا ﷲ کے ساتھ پڑوس کیسا تھا؟ یہ کہیں گے کہ ہم محض ﷲ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے، اسی کے لیے خرچ کرتے تھے، اسی کے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تھے۔ فرشتے کہیں گے جاؤ جنّت میں داخل ہو جاؤ، جو عمل والوں کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ میری رضا کے لیے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ اپنے عزت و جلال کی قسم! میں آج انہیں اپنے سایہ میں جگہ دوں گا، جب کہ اور کوئی سایہ نہیں ہے۔ 

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص دو آدمیوں میں صلح کراتا ہے ﷲ تعالیٰ اسے ایک ایک کلمہ پر جو وہ بولتا ہے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر دیں گے۔ حضرت ابوبکر وراقؒ فرماتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے انبیائے علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، تاکہ مخلوق کو اس کی طرف بلائیں اور دعوت دیں اور ان پر چار چیزوں کا مطالبہ رکھیں دل، زبان، دیگر اعضا اور خلق، پھر ان چار میں سے بھی ہر ایک سے دو باتوں کا مطالبہ کیا۔ دل سے احکام خداوندی کی تعظیم اور مخلوق پر شفقت کا مطالبہ۔ زبان سے ہمیشہ پابندی کے ساتھ ﷲ تعالیٰ کے ذکر اور لوگوں کے ساتھ خوش کلامی کا مطالبہ۔ دیگر اعضا سے ﷲ تعالیٰ کی عبادت اور مسلمانوں سے تعاون کا مطالبہ اور خلق سے ﷲ تعالیٰ کی قضا پر راضی رہنے اور مخلوق کے ساتھ اچھے معاملے او ران کی تکالیف کو برداشت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ دین خیر خواہی اور اخلاص ہی کا نام ہے۔ یہ بات تین بار ارشاد فرمائی عرض کیا گیا کہ یہ اخلاص کس کے لیے مراد ہے ؟ ارشاد فرمایا ﷲ کے لیے، اس کے رسول ﷺ کے لیے اس کی کتاب کے ساتھ اور عام اہل ایمان اور حکام کے ساتھ۔ فقیہؒ فرماتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ کے لیے اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے۔ اس کے احکام پر عمل کرے، جہاں سے روکا ہے رک جائے اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے اور ان کی راہ نمائی کرے اور رسول ﷲ ﷺ کے لیے اخلاص کا یہ مطلب ہے کہ ان کی سنت پر عمل پیرا ہو اور لوگوں کو بھی اس کی طرف بلائے، کتاب کے ساتھ اخلاص یہ ہے کہ اس پر ایمان رکھتے ہوئے اس کی تلاوت کرے اور اس کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور لوگوں کو بھی اس پر لگائے اور مسلم حکام کے لیے اخلاص یہ ہے کہ ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرے اور ان کے لیے عدل و انصاف اختیار کرنے کی دعائیں مانگے اور لوگوں کو بھی اس کی ہدایت کرے۔

عام اہل ایمان کے ساتھ اخلاص یہ ہے کہ ان کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند ہو، ان سے قطع تعلق نہ کرے، ان کے ساتھ صلح کا معاملہ رکھے اور اس کے لیے انہیں دعوت دے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مغفرت کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو خوش رکھے۔ حضرت ام کلثوم بنت عقبہؓ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتی ہیں کہ وہ شخص چھوٹا شمار نہیں ہوتا جو دو اشخاص کے درمیان صلح کرانے کے لیے از خود کوئی اچھی بات کہہ دیتا ہے یا کسی کی طرف منسوب کر دیتا ہے۔ نیز لوگوں میں مصالحت کرانا نبوت کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے اور ان میں لڑائی کرانا جادو کا ایک حصہ ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے نزدیک ثواب میں افضل وہ شخص ہے جو دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے اور قیامت میں ﷲ تعالیٰ کا قرب ان لوگوں کو نصیب ہو گا جو لوگوں میں مصالحت کرواتے تھے ۔

مولانا رضوان اللہ  

Post a Comment

0 Comments