فضائل عشرہ ذوالحجہ : ماہ ذوالحجہ سے فائدہ اٹھائیں

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

فضائل عشرہ ذوالحجہ : ماہ ذوالحجہ سے فائدہ اٹھائیں

اسلامی سال میں اللہ رب العزت نے چار مہینے حرمت والے بنائے ہیں، جن میں بالخصوص لڑائی جھگڑا کرنا، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا یا کسی کو بلاوجہ تنگ کرنا وغیرہ سب ممنوع قرار دیا ہے۔ ان حرمت والے مہینوں میں دور جاہلیت میں عرب والے جنگ کرنے سے باز رہتے، اپنی تلواروں کو نیام میں ڈال لیتے، لوٹ مار سے رک جاتے ، دشمنوں کے خوف سے آزاد ہو جاتے اور اپنے گھروں میں آرام کی نیند سوتے۔ وہ حرمت والے مہینے یہ ہیں رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام۔ ماہ ذوالحجہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اور یہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے۔ ذوالحجہ کا معنی ہے حج والا مہینہ، اس مہینے میں عازمین حج دنیا بھر سے رخت سفر باندھ کر خانہ کعبہ سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں اور اس مہینے کی 8 ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ تک لوگ حج کے ارکان و مناسک ادا کرتے ہیں، اسی لیے اسے ذوالحجہ کہا جاتا ہے۔

ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی قرآن اور احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے اس کا اندازہ رب العزت کے پاک کلام قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی راتوں کی قسم سورہ الفجر میں اٹھائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔‘‘ مفسرین نے اس سے ذوالحجہ کی دس راتوں کو مراد لیا ہے ۔ سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جتنا کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں (ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں) میں پسند ہے، اتنا کسی دن میں پسند نہیں۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے جواب دیا: ’’ہاں ، جہاد فی سبیل اللہ سے بھی نہیں، مگرجو کوئی شخص اللہ کی راہ میں اس طرح نکلا کہ اپنے جان ومال کے ساتھ شہید ہی ہو جائے ۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے، نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی عمل اتنا عظمت اور محبوب نہیں، جتنا ان دس دنوں میں کیا جائے۔ لہذا ان ایام میں کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تمحید کرنی چاہیے۔


مگر افسوس! کہ عوام الناس ان فضیلت والے دن اور برکتوں والی راتوں سے بے خبر اور غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ ؐ اورآپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ان ایام کو بڑا ہی غنیمت جانتے،عبادات اور تکبیرات کا خصوصی طور پر اہتمام کرتے ۔ چناچہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ کا یہ عمل تھا کہ وہ ان دس ایام میں بازاروں کی طرف چلے جاتے اور بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے اورانھیں تکبیرات پڑھتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تکبیرات پڑھنا شروع کر دیتے ۔ ہمیں بھی اس ماہ جہاں نیکی کے دوسرے اعمال زیادہ ذوق و شوق اور زیادہ اہتمام سے کرنے چاہیے وہاں تکبیرات کا بھی خوب اہتمام کرنا چاہیے۔

اس مہینے کی 9 ذوالحجہ کو یوم عرفہ کہا جاتا ہے۔ اس دن حاجی لوگ میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں، یعنی صبح سے لے کر سورج غروب ہونے تک وہاں ٹھہرے رہتے ہیں اوراپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ سے خوب گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں۔ یہ دن اور لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میدان عرفات میں موجود حاجیوں کو دیکھ کر فرشتوں کو مخاطب کر کے ان کے سامنے فخر کرتے ہیں۔ اسی بنا پر اس دن اللہ تعالیٰ جتنے زیادہ لوگوں کو معاف کر کے جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں اتنا کسی اور دن نہیں معاف کرتے ۔ اسی طرح اس مہینے کی 10 تاریخ کو مسلمانوں کا عظیم تہوار اور جدالانبیا سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہوئے عید الاضحی ہوتی ہے، جو کہ مسلمانوں کا مذہبی تہوارہے۔ اس دن دنیا بھر کے مسلمان کھلے میدانوں میں مل جل کر باجماعت نماز عید الاضحی ادا کرتے ہیں اور اللہ کو راضی کرنے کی خاطر اور تقوی کے حصول کے لیے جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔

یاد رہے ماہ ذوالحجہ جو کہ رواں دواں ہے ان بابرکت دنوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے نیک اعمال صدقہ وخیرات، ذکر و اذکار، روزوں اور تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کرناچاہیے اگر کوئی صاحب استطاعت ہو تو وہ بیت اللہ شریف کا حج کرے۔ ذوالحجہ کی پہلی تاریخ سے 13 ذوالحجہ کی شام تک تکبیریں پڑھنا۔ یوم عرفہ ، یعنی 9 ذوالحجہ کا نفلی روزہ رکھنا۔ 10 ذوالحجہ کو عیدالاضحی کی نماز باہر کھلے میدان میں ادا کرنا اور پھر قربانی کرنا۔ عید کے دن غسل کر کے نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہننا اور خوشبواستعمال کرنا، نمازعید کے لیے گھر سے کچھ کھائے پیئے بغیر تکبیرات پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جانا اور عورتوں کو بھی عیدگاہ میں لے کر جانا، نمازعیدالاضحی طلوع شمس کے بعد جلدی ادا کرنا،عیدگاہ سے واپسی پر راستہ تبدیل کرنا وغیرہ یہ سب اعمال بجا لانا اہل ایمان کے لیے ضروری ہے اور یہی ایک حقیقی مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔

حافظ امیر حمزہ سانگلوی

Post a Comment

0 Comments