انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ٔتین کی آیت نمبر 4 میں اعلان فرمایا : ''بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا۔‘‘ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عقل‘ شعور‘ فہم ‘فراست‘ علم‘ ذہانت اور فیصلے کی بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ انسان ساری زندگی اپنے جملہ مسائل کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطاء کردہ ان صلاحیتوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے تگ ودو کرتا رہتا ہے۔ اکثر وبیشتر انسان زندگی میں آنے والی مشکلات اور پریشانیوں پر اپنی صلاحیتوں کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ لیکن بسا اوقات مشکلات اتنی گمبھیر ہوتی ہیں کہ انسان اپنی صلاحیتوں کے باوجود ان کے مقابلے پر بے بس ہو جاتا ہے۔
ایسی صورت میں ان مشکلات سے نکلنے کے لیے انسان دوسرے انسانوں سے معاونت طلب کرتا ہے۔ ہمدرد دوست اور رشتہ دار انسان کو اس مشکل سے باہر نکالنے کے لیے اپنی بساط کی حد تک تعاون کرتے ہیں ‘لیکن بعض مشکلات ایسی ہوتی ہیں‘ جن کا حل احباب ‘ رشتہ دار اور اعزاء و اقارب کے بس میں بھی نہیں ہوتا ہے۔ ان مشکلات کے حل کے لیے انسان خواہ کتنی ہی مادی تگ ودو اور کوششیں کیوں نہ کر لے‘ اس کی مشکلات برقرار رہتی ہیں۔ ایسی صورت میں انسان فقط اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید ہی سے اپنی مشکلات اور پریشانیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں خالق اور مخلوق کے تعلق کا ایک بڑا سبب یہ بھی نظرآتا ہے کہ انسان اپنی مشکلات کے حل کے لیے اپنے خالق ومالک کے سامنے اپنے دست سوال کو پھیلاتا ہے اور اس کا خالق ومالک غیب سے ایسے اسباب کو پیدا کرتا ہے‘ جس کی وجہ سے اس کی مشکلات اور مسائل دور ہو جاتے ہیں۔ قدرتی آفات ‘ حادثات اور وبائیں اسی قسم کی مشکلات ہیں کہ جن سے باہر نکلنے کے لیے انسان فقط اپنے زور بازو اور اپنے اعزاء واقارب کی مدد کے ذریعے کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان حالات میں اس کو اپنے خالق ومالک کی غیبی مدد کی بہر صورت ضرورت رہتی ہے۔ اپنے خالق و مالک کی ذات کے حوالے سے انسان کو ضرور اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں اور انسان کی جملہ مشکلات کو حل کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے چنداں مشکل نہیں۔
جب انسان اس تصور کو اپنے ذہن میں صحیح طور پر جگہ دے لیتا ہے تو اس کے بعد اس کو اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کرنے میں ہی فلاح کا راستہ نظر آتا ہے۔ انسان کی زندگی میں آنے والی تمام مشکلات درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے علم‘ اجازت اور اس کے حکم کے بغیر انسان کی زندگی میں کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتیں؛ چنانچہ انسان کو قدرتی آفات‘ حادثات‘ بلاؤں اور وباؤں کا مقابلہ اور تدارک کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ہمہ وقت رجوع کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ حالیہ ایام کے دوران پورا ملک ہی نہیں‘ بلکہ پوری دنیا کورونا وائرس اور اس کے خوف کی لپیٹ میں نظر آتی ہے ۔ ماہرین طب اور ادویات اس قسم کی وباؤں کا تدارک کرنے کے لیے ہمہ وقت کوششیں کرتے رہتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود تاریخ انسانی گواہ ہے‘ ان وباؤں کے نتیجے میں ہر عہد میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرتے کرتے کئی مرتبہ انسان مختلف قسم کے نفسیات عارضوں اور دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے ۔
اس قسم کی صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا‘ علاج معالجے کی سہولیات کو استعمال کرنا اور عقل ‘حکمت اور فہم وفراست کو استعمال کرتے ہوئے ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنا انسان کے لیے یقینا مفید عمل ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے خالق و مالک سے اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو استوار کرنا یا کمزور تعلق کو بہتر بنانا اور اس کی تائید و نصرت سے ان بیماریوں ‘ آفات اور بلاؤں پر قابو پانے کی کوشش کرنا درحقیقت انسان کی حقیقی کامیابی ہے۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں رہتا کہ انسان کو زندگی میں آنے والے مصائب‘ مشکلات‘ خوف اور غم کی کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ کتاب وسنت میں ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سی خوب صورت تدابیر کو بتلایا گیا ہے‘ جن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:۔
1۔ دعا: جب بھی کبھی انسان اپنی مشکلات میں اپنے خالق ومالک کو پکارتا ہے تو اس کا خالق و مالک اس کی فریاد کو سنتا ہے اور اس کی پریشانیوں کو دور فرما دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتا دیں) بے شک میں قریب ہوں میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھے پر تاکہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔ اسی طرح سورہ نمل کی آیت نمبر 62 میں ارشاد ہوا: ''(کیا یہ بت بہتر ہیں ـ) یا جو (دعا) قبول کرتا ہے‘ لاچار کی جب وہ پکارتا ہے‘ اُسے وہ دور کرتا ہے تکلیف کو اور وہ بناتا ہے تمہیں جانشین زمین میں کیا کوئی (اور) معبود ہے اللہ کے ساتھ؟‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء‘ جو اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین بندے تھے وہ بھی اپنی جملہ پریشانیوں اور مشکلات کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو پکارتے رہے۔ قدرتی آفات ‘حادثات اور بیماریوں کے حوالے سے حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں ہمارے لیے بہت بڑی نصیحت ہے۔ جنہوں نے ایک طویل بیماری کے بعد جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر اس کو پکارا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماریوں اور مشکلات کو دور فرما دیا۔ دعا کی قبولیت کے حوالے سے صحیح بخاری میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے‘ جو بطورِ خاص یہاں پیش ِ خدمت ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا‘ تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا‘ جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے ) اب‘ ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ تینوں اشخاص نے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غار کے پتھر کو ہٹا دیا اور تینوں اشخاص غار سے باہر آ گئے۔ اس واقعہ میں ہمارے لیے بہت بڑی رہنمائی موجود ہے کہ مصائب کتنے ہی گمبھیر کیوں نہ ہوں‘ جب انسان خلوصِ نیت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے مصائب کو دور فرما دیتے ہیں۔
2 ۔ توبہ: انسان کی زندگی میں آنے والے بہت سے گناہوں کا تعلق انسان کی اپنی کوتاہیوں سے ہوتا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے ‘جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا‘‘۔ اور سورۂ روم کی آیت نمبر 41 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا‘ اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے‘‘چنانچہ انسان کو پریشانیوں اور مصائب سے باہر نکلنے کے لیے ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکے توبہ کو طلب کرتے رہنا چاہیے۔ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر توبہ کا طلب گار ہو جاتا ہے‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے مصائب اور مشکلات کو دور فرما دیتے ہیں۔
3۔ ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن : مسنون اذکار اور قرآن مجید کی تلاوت بالخصوص سورہ فاتحہ‘ آیۃ الکرسی اور معوذتین کے پڑھنے کی وجہ سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو شفا یاب فرما دیتے ہیں۔
4۔ توکل: درحقیقت انسانی زندگی میں آنے والے تمام مصائب اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے حکم سے آتے ہیں ؛ چنانچہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ زندگی کے نشیب وفراز کے دوران اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔
5۔ صدقہ: سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 274 کے مطابق ‘انسان کے خفیہ اور اعلانیہ صدقہ کے نتیجے میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے غم اور خوف کو دور فرما دیتے ہیں۔
6۔ تقویٰ : اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے اعراض کرنے والے پر اللہ تبارک وتعالیٰ تنگی سے نکلنے کا راستہ کھول دیتے ہیں۔ سورۂ طلاق کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ ‘‘ان تدابیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جس وقت مصائب آتے ہیں اس وقت بے قرار ہونے کی بجائے ان مشکلات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی آزمائش سمجھ کر صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان سے راضی ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 155 سے 158 تک میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے‘ تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کر کے اور پھلوں میں (کمی کر کے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو ۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے ‘انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں‘ ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ‘‘
قدرتی آفات اور مشکلات کے دوران صبرکا راستہ اختیار کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں امن وسکون اور اعتدال برقرار رہتا ہے۔ حالیہ ایام میں معاشرے میں بے یقینی اور گھبراہٹ کی ایک کیفیت نظر آتی ہے‘ جس کا تدارک کرنا‘ حکومت کے ساتھ ساتھ علما کرام کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس وقت عوام کو اس بات کی یقین دہانی کروانی چاہیے کہ یہ آفات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کی طرف رجوع کرنے سے دور ہو سکتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو آفات اور بلاؤں سے محفوظ فرمائے۔ (آمین )
0 Comments