مُشکلات کے گرداب سے نجات، مگر کیسے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

مُشکلات کے گرداب سے نجات، مگر کیسے

حالات کب بہتر ہوں گے اور ہم مشکلات کے گرداب سے کیسے نکلیں! یہ وہ سوال 
ہے جس کا جواب دینے کے لیے ہر شخص اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ کسی کی سوچ یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر لینے سے ہم مشکلات کے گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ کوئی عصری علوم و فنون میں ترقی کو اس کا مداوا سمجھتے ہیں۔ بعض کی رائے کے مطابق سیاست میں شراکت داری اور بین الاقوامی تعلقات سے اس گتھی کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ جب کہ کچھ مفکرین عسکری قوت اور ایٹمی طاقت کے بل بوتے یہ معرکہ سر کرنا چاہتے ہیں۔ چند افراد ایسے بھی ہیں جن کے عقل کا مقتضاء کثرت زر ہے اور وہ مال و دولت کی قلت کو تنزلی کا پہلا زینہ گردانتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ تمام لوگ بالخصوص مسلم بہ زبان حال یوں کہہ رہے کہ اقوام عالم میں آگے بڑھنے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو گا ۔۔۔۔ ؟

اس سوال کی عقدہ کشائی میں سیاست دان، سائنس دان، مبصرین، تجزیہ نگار، دانش ور، حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے والے اسکالرز، تاجر برادری اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی آراء باہم جدا ہیں۔ ان کے گورکھ دھندے نے معاملے کو مزید الجھا کر رکھ دیا ہے اور ان کے افکار کی یلغار سے معاشرے میں بڑی تبدیلیوں نے انگڑائیاں لی ہیں۔ دولت کے بے تحاشا حصول اور استعمال نے اخلاقی قدروں کو روند ڈالا ہے اور باہمی رشتوں میں دراڑیں ڈالی ہیں۔ قوت و طاقت نے جبر و جور کے طوفان مچائے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات نے حق خود ارادیت کو سلب کیا ہے۔ محض عصری علوم و فنون نے انسانی تہذیب اور تربیت سے جداگانہ رخ اختیار کر لیا ہے۔ سائنسی ایجادات سے متاثر لوگ خدائی قدرت کو بھول بیٹھے ہیں۔

ہم حقیقی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے۔ امن نہیں مل سکا۔ سکون کے لیے ہم آج تک بلک رہے ہیں۔ شاید منزل کے متعین کرنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ جی ہاں! ہم غلط خطوط پر زندگی کی راہیں تراشتے رہے ہیں۔ خالق کے بہ جائے ناسمجھ مخلوق سے راہ نمائی لیتے رہے ہیں۔ نتیجہ آج تک ہم مصائب و مشکلات کی چکی میں برابر پِس رہے ہیں اور ناکامی کی دلدل میں ہنوز دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ چوں کہ حضرت انسان نہایت چالاک بھی واقع ہوا ہے اس لیے اپنی نامرادیوں کا وبال بہ جائے اپنے اوپر لینے کے دوسروں کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ بالخصوص جو بات آج زبان زد عام ہے کہ سارا کچھ حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔ حکمران ظالم ہیں، جابر ہیں، بدعنوان ہیں، معاشی قاتل ہیں، اقتصادی بربادی کے ذمے دار ہیں، اقتدار کے نشے میں مست ہاتھی ہیں، عدم استحکام کے مجرم ہیں، غربت کی دہلیز پر ہمیں گھسیٹنے والے ہیں، وغیرہ۔

یہ حقائق بھی بجا ہیں، یہ باتیں فرضی نہیں واقعاتی حقائق ہیں۔ لیکن معاف کیجیے یہ سب ہمارے مسائل تو ہیں، ان کا حل نہیں۔ محض حکمرانوں کو کوسنا، سارے حالات کا صرف انہی کو ذمے دار قرار دینا، عقل و انصاف سے انحراف کے مترادف ہے۔ ہمیں خود کو بھی بدلنا ہو گا۔ اپنے مہربان رب کے دربار میں جھکنا ہوگا۔ حدیث قدسی ہے، اﷲ پاک کا ارشاد ہے۔ مفہوم: ’’ میں ﷲ ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں بادشاہوں کا مالک ہوں بلکہ بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں۔ جب بندے میری فرماں برداری کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے دلوں کو ان کی طرف رحمت و شفقت کرنے کے لیے پھیر دیتا ہوں اور میرے بندے جب میری نافرمانی پر اتر آتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دلوں کو غصے اور انتقام کے لیے متوجہ کر دیتا ہوں، پس وہ ان کو سخت عذاب اور تکالیف میں مبتلا کر دیتے ہیں اس لیے خود کو بادشاہوں پر بد دعا میں مشغول نہ کرو، بلکہ خود کو ذکر، عجز، تضرع میں مشغول رکھو، تاکہ میں تمہارے بادشاہوں کے مظالم سے تم کو محفوظ رکھوں۔‘‘

عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے تھے: ’’ حجاج بن یوسف خدا کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو بندوں پر گناہوں کے موافق آیا۔‘‘ امام اعظم ابوحنیفہؒ فرمایا کرتے تھے: ’’ جب تمہارا ظالم بادشاہ کے ساتھ واسطہ پڑ جائے اور اس کے سبب سے تمہارے دین میں نقصان پیدا ہو تو اس نقصان کا کثرت استغفار کے ساتھ تدارک کرو، اپنے لیے اور اس ظالم بادشاہ کے لیے۔‘‘ خدائی تعلیمات، نبوی معمولات اور اسلاف کی تشریحات و واقعات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل اطاعت خداوندی، اتباع نبوی ﷺ اور اسلاف کے مشن پر چلنے میں ہے۔ جب تک اس میں کمی رہے گی حالات کبھی بھی نہیں سدھریں گے۔ جب ہم من حیث القوم اپنے اس مرض کی تشخیص و علاج کی طرف توجہ کریں گے جو بہ زبان رحمت کائنات صلی ﷲ علیہ وسلم خدائی قانون میں صراحت سے مذکور ہے یعنی ﷲ کریم کی طرف رجوع، اس کا ذکر، تضرع، دعائیں اور ترقی و حفاظت کے تمام جائز اسباب کو اختیار کرنا۔ تب ہم سب کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا اور تب حالات بہتر ہوں گے۔

مولانا محمد الیاس گھمن  

Post a Comment

0 Comments