بڑے اور کامیاب لوگوں میں تین غیر معمولی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ایک وَہَبی اور دو اِختیاری۔ ایک یہ کہ اُن کا حافظہ نہایت تیز ہوتا ہے اور دوسرے وہ اپنے وقت کا بہترین استعمال کرتے ہیں اور خود احتسابی ان کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے کہ جس میں نہ ہو احتساب ، موت ہے وہ زندگی ! آج تک کوئی بڑا آدمی ایسا نہیں ہوا جس کا حافظہ خراب رہا ہو یا تضیع اوقات جس کی عادت رہی ہو۔
مختار مسعود نے آرنلڈ ٹائن بی کے خاکے میں لکھا ہے کہ ’’دنیاوی کاموں میں انتہائی مصروف رہنے والوں کے بعض بڑے علمی کارناموں کا ذکر آیا تو وہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ابن خلدون ،گروتے، انتھونی ترولپ، گبن اور رشید الدین ہمدانی (وغیرہ ) کی مثالیں انگلیوں پر گنا دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو بھر پور عملی زندگی بسر کرنے کے باوجود بھاری بھرکم علمی کام بھی کر گئے ہیں۔ کم فر صتی کا رونا رونے والوں کے لیے اس فہرست سے بڑھ کر کوئی اور تازیانہ کیا ہو گا ۔
رشید الدین ہمدانی نے وقت کے استعمال اور کام کی تیز رفتاری کے اصول بنا رکھے تھے۔ وہ کم سے کم فراغت میں بڑے سے بڑا کام کر سکتے تھے۔ ’جامع التواریخ ‘ انہوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے لکھی ۔ انہوں نے طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان تاریخ کا لکھنا جاری رکھا ۔ اس کے علاوہ ان کا تمام وقت فرائض منصبی کی نذر ہو جاتا ۔
انتھونی ترولپ (اپنے) اُس ملازم کو پانچ پونڈ انعام دیتے تھے جو صبح کے ساڑھے پانچ بجے انہیں گرم کافی لا کر دیتا تھا۔ یہ تو محض جاگنے کا بہانہ تھا کیونکہ صبح ناشتے تک ترولپ اپنے علمی مشاغل میں مصروف رہنا چاہتے تھے (اس کے بعد ) ان پر فرائض منصبی کی یلغار ہو جاتی ۔
مشہور مؤرخ گِبَن کہتا ہے میں علی الصبح اس لیے کام کرتا تھا کہ پھر گھر میں کوئی ناشتے پر، کوئی سہ پہر کے وقت اور کوئی رات کو مجھ سے گفتگو کا خواہشمند ہوتا ۔ بیکار ہمسائے بھی وقت بے وقت آنکلتے۔ جب چاند چڑھتا تو میری جان نکل جاتی کیونکہ گھر والے مجھے آوارہ گردی پر اپنے ساتھ لے جاتے اور میرے قیمتی وقت کا خون ہو جاتا ۔ گروتے نے اپنے بڈروم میں ایک گھنٹی لٹکا رکھی تھی جس کی رسی ایک چوکیدار باہر سے منھ اندھیرے ہلا دیتا اور بینک کا یہ مصروف ملازم اُٹھ کر تاریخ نویسی میں مصروف ہو جاتا۔ بیدار مغز لوگ راتوں کو بھی بیدار رہتے ہیں اور گھنٹی کی آواز اُن کے لیے صور اسرافیل سے کم نہیں ہوتی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو انتہائی کوشش کے ساتھ جنت کے حریص بنو اور اپنی کوشش بھر جہنم سے بچنے کی فکر کرو۔ کیونکہ جنت ایسی چیز ہے جس کا چاہنے والا سو نہیں سکتا اور آگ ایسی چیز ہے جس سے بھاگنے والا بھی سو نہیں سکتا ۔
عامر بن قیس ایک زاہد تابعی تھے۔ ایک شخص نے اُن سے کہا ’آؤ بیٹھ کر باتیں کریں‘ انہوں نے جواب دیا ’ تو پھر سورج کو بھی ٹھہرالو ‘! تاریخ بغداد کے مصنف خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ جاؔحظ کتب فروشوں کی دوکانیں کرائے پر لے کر ساری ساری رات کتابیں پڑھا کرتے تھے۔
فتح بن خاقان خلیفہ المتوکل (عباسی ) کے وزیر تھے۔ وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب ضرور رکھتے تھے۔ جب اُنہیں سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگتے ۔
اسمٰعیل بن اسحٰق القاضی کے گھر جب بھی کوئی جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔ ابن رُؔشد اپنی شعوری زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کر سکے تھے۔ ابن جریر طؔبری ہر روز چودہ ورق لکھ لیا کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استفادے کے بغیر نہیں گزارا ۔
جارج سارٹن نے ’تاریخ العلوم ‘میں البیرؔونی کودنیا کے بہت بڑے عالموں میں شمار کیا ہے ۔ اُن کے شوق ِ علم کا یہ حال تھا کہ حالت مرض میں، مرنے سے چند منٹ پہلے ایک فقیہ سے علم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے جو اُن کی عیادت کے لیے آیا ہوا تھا۔ علامہ ابن جوؔزی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ امام فخرالدین رؔازی کی بھی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہیں۔ صرف تفسیر کبیر بڑی تقطیع کی تیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے !
علامہ شہاب الدین محمد آلوؔسی مفسر قرآن نے اپنے رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پہلے حصے میں آرام و استراحت فرماتے تھے۔ دوسرے حصے میں اللہ کو یاد کرتے تھے۔ اور تیسرے حصے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔
فی الواقع بڑا آدمی وہی ہے اور کامیابی انہیں کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو پہچانتے ہیں۔ اپنی خامیوں کو دور کرتے ہیں اور اپنی خوبیوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔ اپنے وقت کو بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہیں ۔ ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور رات کو سونے سے قبل اپنا احتساب کر لیتے ہیں۔
شیر شاہ سوری نے محض پانچ سال کی مختصر مدت میں وہ تعمیری، تنظیمی اور اصلاحی کارنامے انجام دیے جن کے لیے ایک صدی کی مدت درکار تھی۔ انہوں نے اپنا شیڈول بنا رکھا تھا اور معاملات و معمولات میں توازن رکھا تھا ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا سارا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے ۔‘‘وہ بھی صرف تین گھنٹے سوتے تھے اور اکیس گھنٹے کام کرتے تھے !
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان والوں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو لغویات میں ضایع ہونے سے بچاتے ہیں ۔ تمام بڑے لوگوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اآن کے دن کا آغاز طلوع صبح صادق اور نماز فجر سے کافی پہلے ہو جاتا تھا۔ ہم بھی اگر صرف اتنا کریں کہ صبح صادق سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے اُٹھ جائیں ۔ تہجد کی پابندی کریں اورنماز فجر نیز تعقیبات و تلاوت قرآن سے فراغت کے بعد بھی بستر پر نہ جائیں ۔ اس طرح صبح جلدی اٹھنے اور فجر کے بعد نہ سونے کے نتیجے میں ہم کو لکھنے پڑھنے یا کسی بھی دیگر ضروری کام کے لیے کم از کم دو یا تین اضافی گھنٹے مل جائیں گے !یہ ہماری بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ صبح چھے سے آٹھ بجے تک اور بسا اوقات نو ساڑھے نو بجے تک کے وقت کو جسے دنیا میں پرائم ٹائم کہا جاتا ہے ،ہم میں سے اکثر لوگ سو کر گزار دیتے ہیں !
امام ترمذی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ: ’’اے اللہ میری امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما ‘‘۔ ایک مشہور چینی روایت بھی ہے کہ جو آدمی صبح جلدی اٹھتا ہے اس کو دولت مند بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
مشفق خواجہ مرحوم ہمارے زمانے کے بہت بڑے محقق، شاعر اور کالم نگار تھے۔ خلیق انجم مرحوم نے ایک بار ان سے پوچھا کہ تحقیق ،شاعری اور اخباروں کے لیے کالم نگاری یہ تینوں کام ایک دوسرے سے مختلف بلکہ کچھ حد تک متضاد ہیں وہ ایک ساتھ یہ تینوں کام کیسے کر لیتے ہیں ؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’’میں تحقیق کے ذریعے بزرگوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں ، شاعری کرتا ہوں تاکہ اپنی ذات کو سمجھ سکوں اور کالم لکھتا ہوں تاکہ اپنے عہد کے ادیبوں اور ان کی تخلیقات کے بارے میں سچائیاں سمجھوں اور بیان کر سکوں ۔‘‘
حواشی :
آواز دوست ،مختار مسعود۔ بارہواں ایڈیشن،(1988) لاہور ص ص 211.213 ۔ شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر ،محمد بشیر جمعہ ،مکتبہ اسلامی دہلی ص ایضاً ص ص 13.14) وقت امانت ہے، ڈاکٹر عبد الواسع شاکر ،ترجمان القرآن مئی (2009 ) ص ص 39.49. مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا ،خلیق انجم ،انجمن ترقی اردو ہند ( 2008 )ص ص 119.120
0 Comments