یہ مسجد استنبول میں ایک تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ اس مسجد کا شمار ہر دور میں دنیا کی خوبصورت مساجد میں کیا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان احمد اوّل کی خواہشات کے مطابق اس مسجد کا نقشہ فن تعمیر کے ماہر صدف کار محمود آغا نے تیار کیا۔ اس مسجد کو عرف عام میں (Blue Mosque) نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ اس کی دیواروں پر 20 ہزار نیلے رنگ کی ٹائلوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ 1609ء میں سلطان احمد اوّل نے ملک کے نامور علماء کرام اور مشائخ کی موجودگی میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس وقت سلطان کی عمر صرف 19 سال تھی۔ 1616ء میں سات سال کی تعمیر کے بعد یہ عظیم مسجد مکمل ہوئی۔
لیکن اس مسجد کی تکمیل کے بعد اسی سال سلطان احمد اوّل کا انتقال ہو گیا اور اسے پہلے سے تعمیر کیے گئے مقبرے میں مسجد سے ملحق شمالی جانب دفن کر دیا گیا۔ اس مقبرہ میں سلطان کی بیگم اور ان کے تین بیٹے بھی ساتھ ہی دفن ہیں۔ اس مسجد کے ڈیزائین اورعیسائیوں کے ایک ہزارسال قبل تعمیر کیے گئے گرجے ایا صوفیہ کے ڈیزائین میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس گرجے کو بعد میں دور عثمانیہ میں ہی مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ غالباً سلطان مسجد کے ڈیزائینر نے ایا صوفیہ کے ڈیزائین سے متاثر ہو کر سلطان مسجد کا ڈیزائین تیار کیا تھا۔ اس مسجد کے چھ مینار اور آٹھ گنبد ہیں جن میں سے ایک مرکزی گنبد بڑا ہے اور اس کا قطر 77 فٹ ہے اور یہ گنبد زمین کی سطح سے 140 فٹ بلند ہے۔ جب کہ چھ میناروں کی بلندی 195 فٹ ہے۔ اتنی بلندی پر ہونے کی وجہ سے کئی میلوں سے یہ مسجد اپنے گنبدوں کے ساتھ نظر آنے لگتی ہے۔
یہ مسجد 235 فٹ لمبی اور210 فٹ چوڑی ہے اور اس میں دس ہزار نمازیوں کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کو دیکھ کر ایک مسلمان کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ جب یہ مسجد اتنی عظیم ہے تو جس کا یہ گھر ہے اور جس ہستی کی یہاں عبادت ہوتی ہے وہ معبود کتنا عظیم ہو گا۔ عمومی طور پر مساجد کے دو مینار یا چار مینار تعمیر کیے جاتے ہیں۔ راقم نے استنبول کی موجودہ مساجد اور بوسنیا میں ایک ایک مینار والی مساجد بھی دیکھی ہیں کیونکہ کبھی بوسنیا اور چیکو سلو واکیہ کے دوسرے ممالک بھی طویل عرصہ تک عثمانی سلطنت کا حصہ رہے ہیں۔ جہاں عثمانی کلچر کی گہری چھاپ نمایاں نظر آتی ہے۔
سلطان مسجد کے چھ مینار بنانے کا واقعہ بھی کافی دلچسپ ہے وہ اس طرح کہ جب سلطان احمد نے مسجد کے چھ مینار بنانے کا حکم دیا تو کئی علما اور بزرگوں نے اعتراض کیا کہ مکہ میں حرم کعبہ کی مسجد الحرام کے بھی چھ مینار ہیں جب کہ مسجد سلطان کا کسی صورت مسجد بیت اللہ سے مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سلطان نے فوراً معماروں کو مکہ بھیجا اور بیت اللہ کا ساتواں مینار بھی اس طرح تعمیر کروایا کہ مسجدا لحرام کی زیب و زینت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ قارئین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مسجد الحرام کی سعودی حکومت کی طرف سے توسیع سے قبل عثمانی حکمرانوں نے ہی توسیع کروائی تھی جو آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔ تو اس طرح مسجد بیت الحرام کا ساتواں مینار تعمیر کروانے سے سلطان مسجد کے چھ میناروں والا تضاد نہایت خوش اسلوبی سے طے ہو گیا۔
یہ واقعہ سلطان کی عاجزی اور غیر معمولی ذہانت کا عکاس ہے۔ عیسائیوں کے سب سے بڑے پیشوا اور موجود ہ پوپ آف روم بینی ڈکٹ نے بھی 30 نومبر 2006ء کو اس مسجد کی زیارت کی۔ تاریخ میں یہ دوسرا پوپ تھا جس نے مسلمانوں کی اس عظیم مسجد کی زیارت کی۔ پوپ اپنے جوتے اتار کر مسجد کے داخلی دروازے کے پاس احتراماً آنکھیں بند کیے 2 منٹ تک خاموشی سے کھڑا رہا۔ جبکہ اس کے برابر مسلمانو ں کے وقت کے مفتی اور امام مصطفی ساتھ کھڑے تھے۔ پوپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ترکی مشرق و مغرب کے درمیان عظیم دوستی کا ایک پل ثابت ہو گا۔ امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما بھی اپنے ترکی کے دورے کے دوران 7 اپریل 2009ء میں اس مسجد کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے۔
کہتے ہیں 1609ء میں جب سلطان احمد نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تو سلطان نے اس وقت خلوص دل سے یہ تاریخی دعا کی ’’اے اللہ اپنے بندے کی یہ بندگی قبول فرما‘‘ اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ رب العزّت نے اپنے بندے کی اس دعا کو یقینا شرف قبولیت سے نوازا ہو گا۔ تعمیر کی چار صدیاں گزرنے کے باوجود بھی یہ مسجد اب بھی دنیا کی 17 ویں بڑی مسجد ہے۔ اسی مسجد کے ڈیزائین میں ایک مسجد روس کے علاقے چیچنیا کے بڑے شہر گروزنی میں بھی تعمیر کی گئی ہے۔ دیکھنے میں گروزنی والی مسجد، مسجد سلطان سے بہت حد تک مشابہت رکھتی ہے۔ اس مسجد کو نمازیوں کے لیے 16 اکتوبر 2008ء کو کھولا گیا تھا۔
0 Comments