6 دسمبر 1992 ء کو بھارت کے شہر ایودھیہ میں ڈیڑھ لاکھ انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ جو برصغیر کے مسلمانوں کے صبر کا امتحان تھا، دور حاضر میں جس طرح اسلام کی صداقت اور حقانیت کا مظہر بنا وہ اسلامی تاریخ میں بلاشبہ ایک ایمان افروز اضافہ ہے۔ اس واقعہ میں ملوث اس وقت کے ہندو انتہا پسند بلبیر سنگھ اور آج کے مسلمان محمد عامر نے گزشتہ شب پیش کیے گئے جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں بتایا کہ’’ میں جس وقت مسجد شہید کرنے اس کی چھت پر چڑھا، مجھے بے چینی اورکپکپاہٹ شروع ہو گئی اور یہ بے چینی اورپریشانی اس وقت ختم ہوئی جب اگلے ہی برس یکم جون 1993ء کو میں نے اسلام قبول کر لیا۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے والدین، دو بھائی اور اہلیہ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے جبکہ بابری مسجد کی شہادت کی کارروائی میں شریک 28 مزید انتہا پسند ہندو دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔ بابری مسجد شہید کرنے والے سابق بلبیر سنگھ اب تک بھارت میں 91 مساجد بھی تعمیر کرا چکے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت سے جنونی ہندو مسلمانوں کو ذہنی تکلیف پہنچانا اور اشتعال دلانا چاہتے تھے لیکن اسلام نے ان میں سے ایک بڑی تعداد کے دل جیت لئے اور یوں یہ واقعہ اسلام کی عظمت کا نشان بن گیا اور یوں تاتاریوں کے قبول اسلام کے حوالے سے کہا گیا اقبال کا یہ مصرع حقیقت بن کر سامنے آیا کہ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
انتہائی ترقی یافتہ اور خوشحال مغربی ملکوں میں بھی قبول اسلام کے واقعات اس حقیقت کے باوجود روز کا معمول ہیں کہ مسلم دنیا ایک طویل مدت سے پسپائی کا شکار ہے اور 57 مسلم ملکوں کے زمین پر موجود ہونے کے باوجود دنیا کے کسی خطے میں بھی اسلام عملی طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ نہیں۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اسلام اپنے اوصاف کی بنیاد پر دنیا میں پھیل رہا ہے اور اگر دنیا کا کوئی ملک اسلامی نظام زندگی کا حقیقی ماڈل بن جائے تو کرہ ارض کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اسلام کو اپنا سکتا ہے۔
0 Comments