گستاخانہ خاکے اور اُمت مسلمہ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

گستاخانہ خاکے اور اُمت مسلمہ

مغرب کا لادین اور لبرل کلچر انسانیت کے نام پر دھبہ ہے۔ مغرب خود کو تہذیب کا علمبردار سمجھتا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان ممالک کے حکمران بالخصوص اور عوام الناس بالعموم اس مرعوبیت میں مبتلا ہیں کہ واقعی مغرب میں ہر چیز معیاری اور قابلِ رشک ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب کا جمہوری نظام صدیوں پر محیط ہونے کی وجہ سے مستحکم ہے لیکن اس کا اصل چہرہ دوسرا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کم و بیش ایک صدی پہلے فرمایا تھا۔ ؂

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندورں چنگیز سے تاریک تر!

مغرب کے مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً رحمت اللعالمینؐ کی شان میں گستاخی کی ناپاک حرکتیں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ کئی گستاخ قدرت کی پکڑ میں آ کر عبرت کا نشان بھی بنے، مگر یہ شیطانی سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہالینڈ میں حالیہ خباثت اُمت مسلمہ کے لیے ایک اور چرکا ہے جس کا بڑی ڈھٹائی سے مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مغرب میں اسے جمہوریت اور شخصی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایسی منافقت اور دوغلاپن ہے جس کے لیے انسانی اقدار میں فی الحقیقت کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم لادین مغربی تہذیب کے علمبرداروں کا اصرار ہے کہ یہ بنیادی حقوق اور شخصی آزادی ہے۔ لعنت ہے ایسی تہذیب پر جو شرافت کو داغدار اور شیطنت کو تاجدار بناتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ مغربی دنیا میں اگر کسی شخص نے یہودیوں و صہیونیوں کے بارے میں معمولی بات بھی کر دی تو اس کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کر دیا گیا۔ دوسری جانب پونے دو ارب مسلمانوں کے مرکزِ عقیدت سید الانبیاءؐ کی ذاتِ پاک پر حملے مغرب کے نزدیک کی کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

مغربی شیطانوں کا کیا شکوہ کہ انہیں تو اپنی شیطنت کا مظاہرہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ افسوس تو عالمِ اسلام کے ساٹھ کے لگ بھگ مسلمان ممالک اور ان کے حکمرانوں پر ہے ۔ پتا نہیں ان کو کیا سانپ سونگھ گیا ہے کہ انہوں نے ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ عوام الناس تو بہرحال احتجاج کر سکتے ہیں جو ہر ملک میں کر رہے ہیں۔ حکمران اور کچھ نہیں تو سارے کے سارے مل کر ہالینڈ سے اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کر لیں تو ایک جاندار پیغام گستاخانِ رسول کو پہنچ سکتا ہے، مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ ۔ گویا غیرت ملی اور حمیّت دینی اقتدار کے ایوانوں میں دم توڑ چکی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مغرب کے دوغلے پن کا اظہار ہر روز منظر عام پر آتا رہتا ہے۔ ایک حالیہ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ لندن سے جاری ہونے والی اس خبر کے مطابق ’’لیبر پارٹی کے رکن جیرمی کوربن کی جانب سے 2013ء میں صہیونیوں کے بارے میں ریمارکس پر لیبر پارٹی میں باقاعدہ شکایت کی گئی، جیرمی کوربن نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ برطانوی صہیونی انگریزی ہی نہیں سمجھتے، لیبر پارٹی کے رہنما سے اس روز کے بعد سے اب تک اپنے اس بیان کی وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کے بقول ان ریمارکس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صہیونیت کے خلاف اس کے رویے پر پارٹی میں اختلافات موجود ہیں۔ ان اختلافات کو کئی ماہ ہو گئے ہیں اس کی وجہ سے لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان پارلیمنٹ اور لارڈز اس مسئلے پر پارٹی میں پھوٹ پڑنے کے خدشے کا اظہار کرنے لگے ہیں۔‘‘

آپ اندازہ کیجیے کہ اوپر دی گئی خبر کے مطابق لیبر پارٹی کے رہنما نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے کسی کی توہین ہوتی ہے۔ انگریزی زبان میں کمزور ہونے کی نشان دہی کون سی گالی یا شان میں گستاخی ہے؟ مگر صہیونی و یہودی، مغربی دنیا کے نزدیک وہ مقدس گائے ہیں جس کی شان میں تحسین و تعریف تو کی جا سکتی ہے اس کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ گائے بے وقت جگالی کر رہی ہے۔ جب گستاخانہ خاکوں کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے تو پوری مغربی دنیا کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ ذاتی رائے اور انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق کوئی کام کر سکتا ہے۔ جیرمی کوربن کے خلاف جس بات پر طوفان اٹھایا گیا ہے عقل و منطق سے بتایا جائے کہ اس میں کیا گستاخی ہوئی ہے اور کیا اس کی ذاتی رائے کا احترام ممنوع ہے؟ انسانی و جمہوری حقوق کا حوالہ دے کر جو منافقت اختیار کی جاتی ہے اُس پر علامہ اقبالؒ کے اشعار خوب تبصرہ کرتے ہیں۔ ؂

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری!

صہیونی ویہودی دنیا میں ایک معمولی سی اقلیت ہونے کے باوجود پورے مغرب پر حاوی ہیں۔ مسلمان اربوں کی تعداد میں کرۂ ارضی پر آباد ہیں، مگر اپنی قدر و قیمت سے غافل و بے خبر ہیں۔ دنیا میں زندہ قوموں کا شعار یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی ایمان و عقائد کی حفاظت کرتی ہیں۔ نبی مہربانؐ جب تک ہر مومن کو اپنی جان، اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور دنیا کے ہر انسان سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں وہ اللہ کی نظروں میں حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا۔ ہمارے مرکزِ عقیدت پر ان حملوں کی وجہ یہ ہے کہ آج پوری امتِ مسلمہ میں کوئی صلاح الدین ایوبی، سلطان محمود غزنوی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم موجود نہیں ہے۔ مسلمان عوام بھی محض جذباتی اظہار عقیدت کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ اپنے ملکوں کے سیاسی نظام میں ایسی تبدیلی لائیں جس کے نتیجے میں ہمارے مقدسات محفوظ ہو سکیں۔ ہماری تو پہچان ہی ہمارے آقا و مولاؐ ہیں۔ ؂

در دلِ مسلم مقامِ مصطفیؐ است
آبروئے ما زنام مصطفیؐ است

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!

حافظ محمد ادریس
 

Post a Comment

0 Comments