امام کعبہ ڈاکٹر صالح بن محمد ابراہیم آل طالب

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

امام کعبہ ڈاکٹر صالح بن محمد ابراہیم آل طالب

سرزمین حجاز سے دیگر مسلم دنیا کی طرح‘ پاکستان کا بھی دوستانہ‘ روحانی اور پیار کا رشتہ ہے۔ اس مقدس سرزمین میں ایسی کشش‘ ایسی محبت اور ایسی خوشبو موجود ہے جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو اپنا اسیر بنائے ہوئے ہے۔ سعودی عرب سے وقتاً فوقتاً مختلف مذہبی شخصیات پاکستان کا دورہ کرتی ہیں جن سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا یہ رشتہ روز بروز مضبوط ہو رہا ہے۔ گذشتہ دنوں امام کعبہ شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے نماز جمعہ کا خطبہ دیا اور کئی شہروں کی بڑی مساجد میں مختلف نمازیں پڑھائیں۔ اس کے علاوہ وہ صدر‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر اہم سرکاری و نجی شخصیات سے بھی ملے۔ 

امام کعبہ نے جمعہ کی رات‘ نماز عشا کی امامت مرکزِ قرآن وسنہ لارنس روڈ میں پڑھائی اور اس کے بعد مختصر خطاب بھی کیا۔ خوش قسمتی سے مجھے بھی ان کی امامت میں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ نماز عشا کا وقت آٹھ بجے تھا لیکن لوگ عصر کی نماز سے ہی مسجد کی طرف کھنچے چلے آ رہے تھے۔ وہ شیخ صالح بن آل طالب کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ ان کی قرأت اس قدر میچور‘ پُرسوز اور واضح تھی کہ دل چاہ رہا تھا کاش کبھی ان کے پیچھے تراویح پڑھنے کا موقع بھی ملے۔

ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب صرف چھیالس برس کے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ صرف امام ہی نہیں بلکہ مکۃ المکرمہ کی ہائی کورٹ کے جج بھی ہیں۔ جہاں تک امامت کی بات ہے تو پاکستان کے برعکس سعودیہ میں امام بننے کے لئے کچھ اور ضروریات ہیں۔ پاکستان میں تو زیادہ تر مساجد میں باریش ہونا ہی امام مسجد کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بیشتر مساجد کے خطیب اپنے فرائض اس طور سے ادا نہیں کر پا رہے جس کی ان سے ایک اسلامی معاشرے میں توقع کی جاتی ہے۔ شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب نے انتہائی کم عمری میں ہی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ایک مدرسہ سے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی جبکہ اسی شہر سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرأت اور سبعہ عشرہ کے علوم میں بھی دسترس حاصل کی۔

امام کعبہ نے ریاض کے شریعہ کالج سے گریجوایشن کرنے کے بعد ہائر انسٹیٹیوٹ آف جسٹس سے ماسٹرز ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ سعودی عرب میں ماسٹرز کا دورانیہ چار سال کا ہوتا ہے۔ امام کعبہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حاصل کی۔ اس کے علاوہ وہ تقریباً دس ماہ تک برطانیہ صرف اس مقصد کے لئے مقیم رہے تاکہ انگریزی پر مکمل عبور پا سکیں۔ امام کعبہ نے انفرادی طور پر سعودی عرب میں تحفیظ القرآن کے درجنوں تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جن کا انتظام و انصرام وہ خود کرتے ہیں، جبکہ دیارِ عرب سے باہر بھی سینکڑوں ادارے ایسے ہیں جن کی سرپرستی وہ کرتے ہیں۔

وہ گزشتہ پندرہ برس سے مسجد الحرام سے وابستہ ہیں اور ان کی خوش الحانی کروڑوں مسلمانوں کو ان کا گرویدہ بنا چکی ہے۔ وہ ایک مایہ ناز مصنف و ادیب بھی ہیں، اِنہوں نے اصلاح، تربیت، اجتہاد، تقلید اور نفاق کے موضوعات پر کئی معرکۃ الآراء کتابیں بھی تصنیف کیں جنہیں عرب و عجم میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کی عربی زبان میں لکھی جانے والی ایک کتاب ''تہذیب و ثقافت کی اشاعت میں مسجد الحرام کا کردار‘‘ نے عالم عرب میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔
مرکز قرآن و سنہ میں نماز عشا کے بعد شیخ صالح بن محمد آل طالب نے پندرہ منٹ خطاب کیا۔ 

ڈاکٹر صالح بن محمد ابراہیم آل طالب کو دیکھ کر اس خواہش نے زور پکڑا کہ کاش ہمارے ہاں بھی چھوٹی بڑی مساجد کے امام اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والے ہوں۔ ہم نے دراصل دین اور دنیا کو الگ کر دیا ہے اور یہی ہمارے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں علما یا امام مسجد کا کام صرف نمازیں پڑھانا ہے اور انہیں دنیاوی تعلیم اور دنیا کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے انہیں نمازِ جنازہ پڑھانے‘ دم درود کرنے اور بچے کے کان میں اذان دینے تک محدود کر دیا ہے۔ اس میں حکومت‘ اداروں اور معاشرے کا بھی اتنا ہی قصور ہے۔ درحقیقت جب تک امام اور خطیب دین ا ور دنیا کو ساتھ لے کر نہیں چلتے‘ معاشرے میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تبدیلی تبھی آئے گی جب مسجدوں اور منبروں کی ذمہ داری روایتی اماموں کی جگہ دینی اور دنیا وی علوم کے ماہر‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سنبھالیں گے۔ کاش ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب کی طرح ہمارے ہاں بھی حفظِ قرآن‘ پُرسوز قرأت‘ ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور کتاب و سنت کے علوم پر دسترس رکھنے والے نوجوان اس میدان میں قدم رکھیں‘ پھر دیکھیں منبر ومحراب سے اٹھنے والی صدائیں کیسے دلوں کو منور اور مسخر کرتی ہیں‘ پھر دیکھیں یہاں اسلام اپنی اصل روح اور اصل شکل میں کیسے نافذ ہوتا ہے.

عمار چوہدری
بشکریہ روزنامہ دنیا

 

Post a Comment

0 Comments