کانپتی مائیں سہمی ہوئی بیٹیوں کو سینے سے چمٹائے گھروں کے آخری کونے میں دبکی بیٹھی ہیں۔ وہ باپ جو بیٹی پیدا ہونے پر بیویوں پر تشدد کرتے تھے۔ پھر دندنانے لگے ہیں۔ کیا ہماری ریاضتیں قبول نہیں ہو سکیں۔ کیا ہماری عبادتیں سچی نہیں تھیں۔ مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر ذاکر نائیک، فرحت ہاشمی کے وعظ دِلوں میں نہیں اُترے۔ تبلیغی اجتماعات، مسجدوں کے خطبے، مدارس کی تعلیم اسکولوں یونیورسٹیوں کی تدریس سب بے اثر ہے۔ کہہ تو دیا جاتا ہے کہ ہم قرآن و سنّت سے دُور ہو گئے ہیں۔ اس لئے یہ عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں میں پہلے سے زیادہ نمازی آرہے ہیں۔ محلّے میں ایک سے زیادہ مسجدیں بن گئی ہیں۔ حجاب پہلے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ پہلے پی ٹی وی پر صرف پانچ منٹ کا مذہبی پروگرام ’’بصیرت‘‘ ہوتا تھا۔ اب پورے پورے چینل مذہبی ہو گئے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ دِکھاوا ہے۔ سب کچھ کاروبار ہے۔ جو معاشرہ اس عظیم دین اسلام کی تعلیمات کی عملی تصویر پیش نہیں کر رہا ہے۔ ہم صراطِ مستقیم سے بھٹکے رہتے ہیں۔
جیسے مزدور بیلچہ، کدال لئے سڑک کنارے کسی سیٹھ کے منتظر ہوتے ہیں۔ ہم سب کسی سانحے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ایسا سیاہ واقعہ ہوتے ہی ہم دو زانو ہوکر موبائل، لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ٹویٹر کے تیر چلتے ہیں۔ فیس بُک پر نیزے بازی ہوتی ہے۔ واٹس ایپ پر توپیں گولے اُگلتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں حکمرانوں پر بیانات کے گرز مارتی ہیں۔ علماء فتوئوں کے میزائل داغتے ہیں۔ تجزیہ کار ٹاک شوز میں دُور دُور کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ ہم روسو بن کر ریاست کو اپنے فرائض یاد دلاتے ہیں۔ ابن خلدون کا روپ دھار کر حکومت کے خلاف مقدمہ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک لحظے کو بھی نہیں سوچتے کہ ریاست تو ہم خود ہیں۔ حکومت بھی ہم ہی بناتے ہیں۔ پولیس میں بھی ہمارے بھائی، چچا، تایا موجود ہیں۔ فوج میں بھی ہمارے ہی جوان ہیں۔ رشتے دار ہیں۔ گناہ بھی ہم سے ہی سرزد ہو رہے ہیں۔ ثواب بھی ہم ہی کما رہے ہیں۔
یہ کیوں نہیں سوچتے کہ 70 سال بعد بھی ہمارا معاشرہ بیمار ہے۔ ہم تہذیب سے کوسوں دور ہیں۔ ہم ایک سسٹم نہیں بنا سکے۔ ہم غاروں سے نہیں نکل سکے۔ فاٹا بھی ہم ہی ہیں، بلوچستان بھی، جاگیریں بھی ہماری ہیں۔ سرحدیں بھی، ویسے ہم مضبوط مرکز کے خلاف ہیں۔ صوبے اپنی خود مختاری مانگتے ہیں۔ اضلاع اپنی۔ لیکن جب کوئی المیہ برپا ہوتا ہے تو ہم چاہتے ہیں۔ وزیراعظم مداخلت کریں۔ چیف جسٹس از خود نوٹس لیں۔ آرمی چیف عسکریت کا مظاہرہ کریں۔ ہم پہلے کونسلر کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ یوسی کے چیئرمین کا رخ نہیں کرتے۔ ایس ایچ او کا گریبان نہیں پکڑتے۔ ایم پی اے۔ ایم این اے۔ سینیٹر کو حرکت میں نہیں لاتے۔ میئر کو میدان میں نہیں لاتے۔
ایک سانحہ سارے نظام کو اُلٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ ہم پرانی صدیوں کے قبائل بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیتے ہیں۔ اکیسویں صدی کا میڈیا۔ اس سے بھی آگے کے موبائل، جدید ترین اسلحہ، ایک سیکنڈ میں اعمالنامے کی سیاہی کو دنیا بھر میں لے جانے والے آلات، نتیجہ ہم دنیا بھر میں رسوا ہوتے ہیں۔ مہذب قومیں دانتوں میں انگلیاں دبا لیتی ہیں۔ ایسی قوم بھی روئے زمین پر موجود ہے۔ جو اپنے مسئلے حل کرنے کی بجائے مسئلے اچھالتی ہے۔ ایک بیٹی کی بے حرمتی اور قتل پر نظام حرکت میں نہیں آتا گیارہ بیٹیوں کی بے آبروئی ہوئی ہے صرف نوٹس لیا جاتا ہے اور بس۔ قصور میں اگر ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر صورتِ حال کو نہیں سنبھال سکتے یا اس نیک کام کے لئے نکلے ہی نہیں تو کیا الیکشن کا طریقِ کار بے سود نہیں ہو گیا۔ اگر ایجنسیوں پر لوگوں کو اُکسانے کا الزام درست ہے تب بھی یہی سوال ہے کہ کیا لاکھوں ووٹ لینے والوں کی بات کوئی نہیں مانتا۔
سوچنے کا نکتہ یہ ہے کہ کیا ہمارے سارے ڈھانچے اندر سے کھوکھلے ہیں۔ ہماری زباں دل کی رفیق نہیں ہے۔ جمہوریت ہے۔ مگر ناز نخرے بادشاہوں والے۔ ہمیں ووٹ دینے کا طاقت ور حق حاصل ہے مگر ہم سب اپنے آپ کو بے زبان رعایا ہی سمجھتے ہیں۔ اپوزیشن اپنے بیانات تقریروں پر صرف تالیاں چاہتی ہے۔ میڈیا صرف ریٹنگ۔ حکمراں صرف پٹیاں اور سرخیاں۔ مسئلے حل کرنا نہیں چاہتے۔ ہم مسئلے پالتے ہیں۔ مسئلے نہیں رہے تو ٹاک شوز کس بات پر کریں گے بجٹ کس کے لئے مانگیں گے۔ جدید ترین اسلحہ کس کے لئے خریدیں گے۔ زینب، ہم سب کو شرمندہ کر گئی ہے۔ ہمارے ضمیر اگر ہیں، ان کو جھنجھوڑ گئی ہے۔ یہ سانحہ فیصلہ کن موڑ بن سکتا ہے۔ اگر ہم اس کا ہر زاویے سے تجزیہ کریں۔ مظاہرے ہو چکے۔ لاٹھی چارج، گولیاں برس چکیں۔ اشتعال کا اظہار ہو چکا۔
سوچیں کہ ایسے دل دہلا دینے والے سانحے پر احتجاج تو پورے ملک میں ہونا چاہیے تھا۔ قصور تک کیوں محدود رہا۔ جنسی تشدد کی یہ وارداتیں صرف قصور میں ہی کیوں ہوتی ہیں۔ کیا قصور کا نام بدلنا چاہیے۔ پھر قصوری اپنے ساتھ کیا لاحقہ رکھیں گے۔ تاریخی، قانونی، منطقی، سماجی، جنسی، نفسیاتی ضرورت یہ ہے کہ ہر پہلو سے اس المیے پر تحقیق کی جائے یہ رپورٹ پورے ملک کے لئے آئینہ بن سکتی ہے۔ حکومتی تفتیش اپنی جگہ، یونیورسٹیاں، این جی اوز، مذہبی جماعتیں، سیاسی جماعتیں، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینیٹ اپنے اپنے انداز سے جائزہ لیں کہ اس جنسی بے راہ روی کے کیا اسباب ہیں۔ محرومیاں درندگی کیوں بن رہی ہیں۔ اس معاشرے کے کیا رویے ہیں۔ کھانے پینے کی عادتیں کیا ہیں۔ مساجد مدارس میں کیا تقریریں ہوتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو کتنا وقت دیتے ہیں۔ اساتذہ کیا تدریس کے مقدس پیشے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اسکول صرف پیسے کمانے کی مشینیں ہیں یا وہاں کچھ پڑھایا بھی جاتا ہے۔ کونسلر ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ یہ تحقیقی مطالعہ 2018 کے الیکشن سے پہلے ہماری بہت رہنمائی کر سکے گا۔
چیف جسٹس کا از خود نوٹس اپنی جگہ بہت نیک اقدام ہے۔ لیکن یہ مقامی انتظامیہ کے لئے معمول کی تفتیش روکنے کا ایک بہانہ بن جاتا ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر ڈی آئی جی تک یہ کہتے نظر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلایا ہے۔ ابھی کچھ نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ سپریم کورٹ پولیس افسروں کو فوراً اپنے پاس طلب کرنے کے بجائے یہ حکم دے کہ ایک ہفتے میں تفتیش مکمل کر کے ملزموں کو گرفتار کر کے چالان متعلقہ عدالت میں پیش کر کے رپورٹ بھیجو۔ آپ کا کیا خیال ہے۔
0 Comments