حضرت ابوسعید خدری ؓ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :’’جب آدمی صبح سو کر اٹھتا ہے تو سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے واسطے اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہ! اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہے تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گی تو ہم ٹیڑھے ہونگے۔ ایک صحابی عقبہ بن عامر ؓ نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ نجات کیسے حاصل ہو گی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی زبان قابو میں رکھو، اور تمہارا گھر تمہیں گنجائش دے (بلا ضرورت وہاں سے نہ نکلو) اور اپنی غلطی پر رویا کرو۔
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی ؓ نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ میرے اوپر سب سے زیادہ کس بات کا خوف کرتے ہیں؟ تو آپﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور (اس کی طرف اشارہ کر کے) فرمایا: ’’ہٰذا‘‘ یعنی سب سے زیادہ خطرے کی چیز یہ زبان ہے۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے:’’انسان کا خاموشی کو اختیار کرنے کا مرتبہ 60 سال کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔
ایک موقع پر آپﷺ نے حضرت ابوذر غفاری ؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے ابوذر کیا میں تمہیں ایسی دو عادتیں نہ بتاؤں جو پیٹھ پر ہلکی (یعنی کرنے میں آسان) اور میزان عمل میں بھاری ہیں۔ میں نے عرض کیا۔ ضرور بتائیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا (۱) لمبی خاموشی (۲) خوش اخلاقی ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ مخلوق نے ان دونوں عادتوں سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں کیا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ یا تو خیر کی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ یہ ارشادات مبارکہ ہمیں بتاتے ہیں کہ زبان کی حفاظت کس قدر مہتم بالشان اور ضروری امر ہے، جس کا لحاظ رکھے بغیر اللہ تعالیٰ سے شرمانے کا حق ہرگز ادا نہیں ہو سکتا۔
0 Comments