مغرب میں اسلام، مشرق میں کفر کا فروغ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

مغرب میں اسلام، مشرق میں کفر کا فروغ

میں دقیانوسی ہوں! یہ بلاگ پڑھنے کے بعد شاید آپ یہی نتیجہ اخذ کریں۔ لیکن آزادئ اظہار کے اس دور میں مجھے بھی اسی طرح اپنے خیالات بیان کرنے کی آزادی ہے جیسے ہر کس و ناکس کے پاس ہے۔ اجازت دیجیے کہ میں بھی اس آزادی کا کچھ فائدہ اٹھاؤں اور اپنے خیالات آپ تک پہنچاؤں۔ مشرقی و مغربی تہذیبوں میں ازل ہی سے زمین آسمان کا فرق رہا ہے۔ مشرق روشنی کا پتا دیتا ہے اور مغرب تاریکی کے چرچے کرتا ہے، مشرق شرم و حیا اور غیرت کی ترغیب دیتا ہے تو مغرب شرم و حیا کے معاملے میں انسانیت کے مقام سے مکمل طور پر گرتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اب حالات شاید بدل رہے ہیں، اب گنگا الٹی سمت بہنے لگی ہے۔

پچھلے دنوں اسلام آباد میں ’’Islamabad Eat‘‘ کے نام سے ایک فیسٹیول منعقد کیا گیا۔ بظاہر اس محفل کا نام تو کھانے پینے ہی کا تاثر دیتا ہے مگر درحقیقت وہاں جو کچھ ہوا وہ یقیناً اسلام کے نام لیواؤں، پاکستانی قوم اور مشرقی اقدار کے بالکل متضاد تھا۔ مرد و زن کا اختلاط اور خواتین کا مغربی طرز کا لباس زیب تن کرنا تو ایک طرف کیونکہ اس میں تو اب شاید اس قوم کو کوئی قباحت نظر ہی نہیں آتی۔ عورتوں کا لباس کے ذریعے اپنے جسموں کی نمائش جائز اور مرد و زن کا بلا جھجھک میل جول حلال سمجھا جانے لگا ہے۔ مشرقی تہذیب کو جھٹک کر مغربی تہذیب کو گلے سے لگا لیا گیا ہے۔ لیکن میرا سوال صرف اتنا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ نئی نسل کو اس سب میں کیوں لگایا جائے؟ کیوں آنے والی نسل کو مشرقی تہذیب کا باغی بنا کر نام نہاد مغربی تہذیب کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے؟ اس نسل کو تو خالد کی تلوار اور حیدر کی للکار بننا ہے۔ اسے اماں عائشہ صدیقہ ؓ کی پاکیزگی کا عملی نمونہ بننا ہے اور بلال ؓ کی قربانیوں کو تازہ کرنا ہے۔

آج اس معاملے پر قلم اٹھانے پر مجبور اس 9 سالہ بچی نے کیا ہے جسے اس کے والدین اس محفل میں لائے اور وہاں موجود اسٹیج پر چڑھا کر انگریز گلوکار کا گانا Despacito گوایا۔ مغربی لباس زیب تن کیے اس معصوم بچی کو یہ کیا سکھایا جا رہا ہے؟ مسلمان ہونے کے ناطے، ایک اللہ و آخری رسولﷺ کو ماننے والی وہ معصوم بچی جسے شریعت کے احکامات جاننے تھے، جسے اپنی حدود سمجھنا تھیں، جسے اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم دی جانی تھی، اس معصوم بچی کو اسٹیج پر چڑھا کر یہ کیا کروایا جا رہا ہے؟ کیا یہ اللہ و رسولﷺ سے بغاوت نہیں؟ اس ناسمجھ بچی کو کیوں اللہ و رسولﷺ کے احکامات و تعلیمات سے روگردانی سکھائی جا رہی ہے؟ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے۔ کیا بچی کی اس صلاحیت کو ہم مثبت انداز میں نہیں ڈھال سکتے؟ کیوں ہم اس ننھی بچی کی اس قابلیت کو اسلام کی فلاح کے لیے استعمال نہیں کرتے؟

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو مغرب میں روزانہ سیکڑوں ہزاروں افراد اسلام کے نور سے منور ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف امریکا کی جیلوں میں 2001 سے 2014 کے درمیان 250،000 قیدی اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اگر یہ تعداد صرف امریکا کی ہے اور امریکا میں بھی صرف جیل میں بند قیدیوں کے اسلام قبول کرنے کی تعداد ہے تو باقی مغرب میں یہ تعداد کتنی ہو گی؟

ایک رپورٹ کے مطابق 2050-2070 تک برطانیہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے گی۔ ایک اور تجزیئے کے مطابق امریکا میں 2040 تک مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے گی۔ وہ مغرب جہاں آج بھی تاریکی کا دور دورہ ہے، جو تمام تر فتنوں کی آماجگاہ ہے وہاں اسلام کا نور کس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ جس طرزِ زندگی و طرزِ معاشرت سے مغرب جان چھڑانا چاہ رہا ہے اسے ہم مسلمان، خصوصاً مشرقی لوگ کس قدر جنونیت سے اپنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مغربی لباس کا یوں عام ہونا، غیرشرعی تعلقات (بوائےفرینڈ/ گرل فرینڈ) کی لت میں پڑنا مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نہیں تو اور کیا ہے؟
لیکن یاد رکھیے! ہم اگر پیدائشی مسلمان ہیں تو یہ بات ہماری بخشش کےلیے کافی نہیں، بلکہ اسلام پر عمل پیرا ہو کر ہی رب سے بخشش کی تمنا کر سکتے ہیں۔ وہ وحدہ لاشریک ذات، وہ ہر شے پر قادر رب اپنے دین کا کام اور لوگوں سے بھی لے سکتا ہے۔ اور پھر بات یہی ہو گی کہ ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘

خدارا جاگ جائیے۔ اپنی آنکھیں کھول لیجیے کہ ہم آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے گہری تاریک کھائی میں گرنے جا رہے ہیں۔ گزارش بس اتنی سی ہے کہ جس دنیا کو ہم نے دل میں بسایا ہے وہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ اور یہ بات صرف مذہب کے پیروکار ہی نہیں، ملحد بھی مانتے ہیں۔ تو آخر کیوں ایسی دنیا میں، چند روزہ بےاعتبار زندگی کی خاطر اس رب کے احکام توڑیں جس پر ایمان لانے کے دعوے کرتے ہیں؟ کیوں ایسی بے وفا زندگی کےلیے اس محبوبﷺ کے دل کو ہر لمحہ تکلیف پہنچائیں جو اس جہانِ فانی میں اپنے آخری لمحات کے دوران بھی صرف ہمیں ہی یاد کرتا رہا؟

اگر یہ باتیں دقیانوسی لگتی ہیں تو صرف اتنی گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس دقیانوسیت کو دل سے اپنا کر ماڈرن بننے میں کوئی قباحت نہیں۔ پرانے خیالات پر کاربند رہ کر نئے خیالات پر عمل کرنے میں برائی نہیں۔ ماڈرن بنیے لیکن شرعی حدود کے اندر۔ نئے خیالات اپنائیے مگر ذہن میں رکھیے کہ اللہ و رسولﷺ کے احکامات توڑ کر ان کی بغاوت میں سراسر ناکامی ہے۔ خدارا اپنے بچوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت سکھائیے، ان کے احکامات سمجھائیے، ان کی تعلیمات ازبر کرائیے، انہیں اسلام کے پہریدار اور مشرقی تہذیب کے محافظ بنائیے۔ ورنہ تاریخ ہمیں ایسے مٹا دے گی کہ پھر ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

اسد یوسفزئی
 

Post a Comment

0 Comments