واسکوڈی گاما کے دیس میں مساجد

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

واسکوڈی گاما کے دیس میں مساجد

کچھ دِن پہلے بارسلونا سے’’واسکوڈے گاما‘‘ کے ملک پرتگال جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز وہاں کے دارالحکومت ’’لزبن‘‘ اُترا۔ ائیر پورٹ پر ہمارے دوست ہمیں اپنے ساتھ لیجانے کے لئے موجود تھے۔ دوران سفر ہم نے احباب سے اپنی اسلامی تاریخ سے دلچسپی کا اظہار کیا، جواب میں کہا گیا کہ ہم آپ کو ایسی جگہوں پر لے جائیں گے جہاں آپ کے شوق کی تکمیل ہو گی۔ گھر پہنچ کر کچھ آرام کیا اور پھر احباب کے ساتھ یورپ کے خوبصورت ملک پرتگال کے چیدہ چیدہ اور تاریخی مقامات کی سیر کو نکل پڑے۔ سب سے پہلے ہم اُس جگہ گئے جہاں بر اعظم یورپ کا اختتام ہوتا ہے اِس لئے اُس جگہ کو ( End Of Europe) کہا جاتا ہے۔

یہاں یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ (End Of World ) یعنی دُنیا کا آخری کنارہ ناروے میں ہے۔ بہر حال یہ ایک دیکھنے والا منظر تھا، مختلف ممالک کے سیاح وہاں موجود تھے مذکورہ مقام کی خاص بات یہ ہے کہ سمندر کے اِس آخری کنارے کے بعد خشکی کا پہلا حصہ امریکہ ہے۔ یہاں سے ہم مسلمانوں کے دور حکومت میں بنائے گئے اُس قلعے کی جانب روانہ ہوئے جو لزبن سے کار کے ذریعے ایک گھنٹے کی مسافت پر علاقے ’’سین ترا‘‘ میں واقع ہے اور اسے ’’نیو کاسیل‘‘ کا نام دیا گیا ہے اس قلعے کے دروازے پر کلمہ طیبہ اور اندر آج بھی عربی آیات لکھی ہوئی ہیں آنکھیں اور دِل یہ دیکھ کر معطر ہو گئے۔ معلومات لیں کہ یہ عربی آیات یہاں کیسے؟ 

احباب نے بتایا کہ 711 میں جب طارق بن زیاد جبرالٹر جسے عربی میں جبل الطارق بھی کہا جاتا ہے کے راستے اسپین میں داخل ہوا اور بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ اسپین کے سپہ سالار’’ رودریکو ‘‘ سے ٹکرایا، رودریکو کے پاس اُس وقت ایک لاکھ سپاہی تھے، لیکن جذبہ ایمانی سے لبریز مسلمان سپہ سالار نے کفر کو شکست دے دی۔ فتوحات کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے پرتگال اور فرانس کے کافی حصوں تک پھیل گیا۔ اُس دور کی ایک نشانی پرتگال کا شہر ’’فاطمہ‘‘ بھی ہے جو اُس وقت کے مسلمان بادشاہ کی ملکہ کے نام پر آباد کیا گیا تھا۔ اسلامی ادوار کی نشانیاں دیکھ کر تھک گئے تو باقی اگلے دن دیکھنے کا فیصلہ سناتے ہوئے واپس روانہ ہوئے۔

رات اور ہلکی ہلکی بارش میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں بننے والے تعمیراتی شاہکاروں کے عکس اپنے دِل و دماغ میں محفوظ کرتے ہوئے ہم بڑے ہائی وے پر محو سفر تھے کہ اچانک ہماری نظر مسجد کے ایک بڑے مینار پر پڑی توہم چونک گئے۔ احباب سے پوچھا کہ یہ روشنیوں میں نہایا اور جگ مگ کرتا مینار کس مسجد کا ہے؟ دوستوں نے کہا کہ ہم آپ کو اِس مسجد میں ہی لے چلتے ہیں کیونکہ یہ بھی رواں صدی کا ایک بھر پور شاہکار ہے۔ تجسس بڑھتا جا رہا تھا کیونکہ مسجد بالکل نئی اور موجودہ طرز تعمیر کا پتا بتا رہی تھی۔ مسجد میں داخل ہوئے تو ہمارا استقبال ’’موزمبیق‘‘ سے تعلق رکھنے والے امام مسجد شیخ منیر نے کیا۔ ہم نے شیخ منیر سے اِس مسجد کی بابت ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دئیے۔ 

شیخ منیر ہمارے ساتھ مخاطب ہوئے اور کہا کہ وہ 1986 سے یہاں امامت کروا رہے ہیں۔ وہ موزمبیق کے رہنے والے ہیں اُردو انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر سیکھی۔ انہوں نے پرتگال اور موزمبیق کی جو تاریخ ہمیں بتائی وہ ہم اُن کی زبانی آپ کو سنانا چاہتے ہیں، 1960 سے موزمبیق کے مسلمان پرتگال آنا شروع ہوئے تھے، 1968میں ’’اسلامک کمیونٹی آف لزبن‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جس کے تحت لزبن میں پہلی سینٹرل مسجد بنائی گئی۔ پہلے پہل مسجد کو اسلامی ممالک فنڈنگ کرتے تھے لیکن یہ سلسلہ مدھم ہو گیا اب ایران ٹائلز اور سعودی عرب مسجد کو ماربلز اور دوسرا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن فنڈنگ نہیں ہوتی۔ اِس سینٹرل مسجد میں بیک وقت میں 7 ہزار مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں۔

یہاں تمام مسالک کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ 1975میں جب پرتگال نے موزمبیق اور’’ گنی بی ساؤ‘‘ کو آزاد کیا تو وہاں کے مسلمانوں کے پاس پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کوموزمبیق سے کسی دوسرے ملک جانا بہت دشوار بلکہ ناممکن تھا تب حکومت پاکستان نے موزمبیقی افراد کو پاسپورٹ دئیے تا کہ وہ اپنی مرضی کے ملک میں جا سکیں۔ موزمبیقی انڈیا اور پاکستان گئے لیکن وہاں کے کلچر کے ساتھ نبھا نہ کر سکے اور پرتگال آ گئے کیونکہ موزمبیق پرتگالی کالونی رہا تھا اور پرتگالی باشندے موزمبیق میں رہ چکے تھے اس لئے وہ ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھتے تھے۔ واسکوڈے گاما نے جہاں انڈیا دریافت کیا وہاں وہ نارتھ کی طرف برازیل تک گیا، گوا، دمن اور ’’دی اُو‘‘ پرتگالی کالونیاں تھیں لیکن 1971میں انڈیا نے جنگ کر کے پرتگال سے یہ علاقے چھین لئے، یہی وجہ ہے کہ پرتگال کے موجودہ وزیر اعظم کے آبائو اجداد کا تعلق ’’گوا‘‘ سے ہے۔ 

یہ روایت بھی ہے کہ پرتگال اور برطانیہ کے بادشاہوں کے درمیان رشتہ داریاں بھی ہوئیں اور آج بھی پرتگال میں انگلش کالونیاں موجود ہیں۔ واسکوڈے گاما جب مسقط، موزمبیق، گوا، انڈونیشیا، برازیل، تائی مور آئی لینڈ تک گئے تو اُن کی رہنمائی مراکش کے ایک شہری نے کی تھی، اِن ملکوں میں پرتگیش زبان بولے جانے کی وجہ یہی ہے کہ وہاں پرتگال کی حکومت رہی تھی۔ لزبن کے نواح میں مسجد عائشہ سمیت سائوتھ اور نارتھ پرتگال میں پچاس مساجد موجود ہیں۔ رمضان المبارک کا روزہ افطار کرنے کے لئے پندرہ سو مسلمان روزانہ سینٹرل مسجد لزبن میں پہنچتے ہیں۔ پرتگال میں پاکستانی مسلمانوں کی تعداد 3 ہزار تین سو گیارہ ہے۔ ہر ہفتے مسجد میں اسلامک فورم ترتیب دیا جاتا ہے جس میں مقامی کمیونٹی شریک ہوتی ہے۔ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے پرتگال میں مقیم مسلمان ہی پیش پیش ہیں جبکہ ترکی سے ماربلز، اور ایران سے ٹائلز کی امداد کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی ایک فیملی نے بھی مسجد کا زیریں حصہ تعمیر کرایا ہے۔ 

شیخ منیر بولتے جا رہے تھے اور ہم مسلمان ممالک کی اِ س بے حسی پر حیران تھے کہ وہ جنگی جنون میں ہتھیار خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں، بڑی طاقتوں سے اپنے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئےاخراجات کے ساتھ ساتھ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، مغربی ممالک سے اقتصادی اور ثقافتی روابط بڑھانے میں تیزی لا رہے ہیں لیکن غیر مسلم ملک میں قائم یورپ کی اتنی بڑی مسجد کی تعمیر اور اُس کو قائم رکھنے کے لئے نہ تو کوئی حکمت عمل بنائی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی امدادی اسکیم زیر غور ہے۔ 6 سو سال تک اسلامی شعار سے بنجر رہنے والی زمین پر اگر سینٹرل مسجد لزبن جیسا پھول اُگا ہے تو اُس کی آبیاری اور حفاظت کی ذمہ داری اسلامی ممالک کیوں نہیں لے رہے، دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

شفقت علی رضا

Post a Comment

0 Comments