’غار حرا‘ - جہاں سے سرچشمہ نور ہدایت پھوٹا

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

’غار حرا‘ - جہاں سے سرچشمہ نور ہدایت پھوٹا

’اقراء‘ (پڑھیے) ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل ہوئے جب آپ مکہ مکرمہ سے دور غار حرا میں کئی ماہ سے تدبر و تفکر میں مشغول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی غار حراء کو سر چشمہ نور ھدایت قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہیں سے انسان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی پر مبنی پیغام کا آغاز ہوا اور دنیا کے کونے کونے تک جا پہنچا۔ سطح سمندر سے 634 میٹر بلند غار کو جبل النور بھی کہا جاتا ہے۔ العربیہ ڈٹ نیٹ کے مطابق مسجد حرام سے غار حراء چار کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ غار کے اندر داخل ہونے کے راستہ اس کے شمال کی سمت سے ہے اور وہاں سے خانہ کعبہ کا براہ راست نظارہ ممکن ہے۔
غار حراء کی صفات
حرمین شریفین کے محقق محی الدین الھاشمی کہتے ہیں کہ غار حراء اندر سے کوئی بہت کھلی جگہ نہیں۔ وہاں ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ چھ افراد سما سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غار حراء تک پہنچنے کے لیے اچھی خاصی جسمانی طاقت کی ضرورت ہے کیونکہ چڑھائی چڑھتے ہوئے وہاں تک پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ جبل النور کی چوٹی پر پہنچ کر وہاں سے غار حرا کے اندر جانے کے لیے مزید 20 میٹر چلنا پڑتا ہے۔ دنیا کے کسی اور مقام پر ایسا کوئی غار نہیں۔ یہ غار باہر سے کافی حد تک اونٹ کی کوہان سے مشابہت رکھتی ہے۔

غار حراء کا مشہور واقعہ
مورخ الھاشمی نے بتایا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال ہو گئی تو آپ ﷺ ماہ صیام میں غار حراء کے لیے عازم سفر ہوئے اور غار میں مکمل ایک ماہ کے لیے اعتکاف کی نیت سے بیٹھ گئے۔ وہ اپنے ساتھ ضروری کھانے پینے کا کچھ سامان بھی لے گئے تھے۔ تاریخی مصادر سے پتا چلتا ہے کہ بعثت سے قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی چاہتے تھے اور وہ غور وفکر کے لیے کسی ایسے مقام کی تلاش میں تھے جو مکہ قریب مگر ہر قسم کے شور شرابے سے محفوظ ہو۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جب آپ ﷺ اعتکاف میں تھے فرشتہ روح الامین (حضرت جبریل) نازل ہوئے اور حضرت محمد ﷺ سے کہا کہ ’پڑھئے‘۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ میں پڑھا لکھا نہیں۔ حضرت جبریل نے تین بار یہی بات دہرائی اور اس کے بعد آپ نے: "اقرأ باسم ربك الذي خلق. خلق الإنسان من علق. اقرأ وربك الأكرم. الذي علم بالقلم‘ آیات کی تلاوت شروع کی۔ یہ سرچشمہ نور نبوت کا نقطہ آغاز تھا۔ الھاشمی کا کہنا ہے کہ غار حراء اسلامی تاریخ میں اہم مقام رکھنے کے ساتھ مسلمانوں کےلیے بھی ایک مقدس جگہ کا درجہ رکھتی ہے۔ دن اور رات میں ایسا کوئیی وقت نہیں جب وہاں پر زائرین کا نزول نہ ہوتا ہو۔

لعربیہ ڈاٹ نیٹ ۔۔۔ محمد الحربی

Post a Comment

0 Comments