’’اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرے حضور میں۔ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں،
تیرے سوا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ ساری تعریفیں اور سب نعمتیں تیری ہیں، اور ملک اور بادشاہت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔ آج کل حج کا سیزن ہے ہر ایک اپنے ملنے والوں کو اپنے سفر کی خوشخبری سنا رہا ہے۔ کوئی لوگوں سے ملاقات کرکے معافیاں مانگ رہا ہے تو کوئی ڈائری میں اُن تمام لوگوں کے نام لکھ رہا ہے جنہوں نے دعا کا کہا ہے۔ کوئی سفری انتظامات میں پریشان ہے تو کوئی مناسکِ حج کے حفظ میں مصروف۔ عبداللہ سوچا کرتا کہ آخر حج ہے کیا؟ کیوں ہم سب کام چھوڑ کر کچھ دنوں کے لئے بیت اللہ چلے جائیں؟ وادی عرفات میں قیام کریں، منیٰ و مزدلفہ میں رُکیں، شیطان کو کنکریاں ماریں، طواف کریں؟ اسلام کا ایک رکن اور زندگی میں ایک بار فرض تو سمجھ آتا ہے مگر وہ ایسی کیا چیز ہے جو اسے تمام دوسری عبادتوں سے ممتاز بناتی ہے؟
حج مشقت کا نام ہے۔ جیسی محنت و مشقت ہم اپنی زندگیوں میں دنیا پانے کے لئے کرتے ہیں اس کا ایک چھوٹا سا اظہار ایام حج میں ہم اللہ کو پانے کے لئے کرتے ہیں۔ حضرت رسالت پناہ صلّی اللہ علیہ وآل وسلم نے حج کو عورتوں کا جہاد بتایا ہے۔ بندے کو ہمت کرنی چاہئیے کہ جیسے دنیا کی لگن میں دن رات جُتا رہتا ہے ایسے ہی کچھ دن اللہ کی رضا کے لئے بھی نکالے۔ اب اللہ کا قرب اتنا سستا تھوڑی ہے کہ بغیر محنت و مشقت کے مل جائے۔ بندہ تڑخ جاتا ہے پھر کہیں جا کر آگ لگتی ہے۔ حج آزمائش بھی تو ہے کہ دیکھیں کون کس نیت سے آتا ہے اور کون نیت بچا کے لے جاتا ہے؟ کون ہے جو سامان، رونق، بازار، نظم و نسق، آرام و آسائش، سہولت و تکلف، پیرومرشد، مہمان و زائر اور غائب و حضوری میں الجھ جاتا ہے اور کون ہے جو اللہ کا بندہ بن کر اپنے رب سے جا ملتا ہے؟ کون ہے جسے حضوری حاصل رہتی ہے اور کون ہے جو حضوری کی تلقین میں حضوری سے قاصر رہتا ہے؟ مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں کہ راستے کے مناظر میں نہ الجھو تو منزل پر آنکھیں تازہ دم رہتی ہیں۔ اس سفر میں نگاہ صرف اس کی طرف ہونی چاہئیے جس نے بلایا ہے۔ باقی سب تو فسوں ہے۔ بقول قدرت اللہ شہاب، اس سفر میں کوئی تفصیل اہم نہیں سوائے حاضری کے۔
حج طواف بھی تو ہے کہ بس اس کے گرد چکر لگاتے رہو، ان پروانوں کی طرح جو شمع کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ طواف چکّی کے پاٹ کی طرح ہر پھیرے میں آپ کو توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ آپ کی ذات کرچی کرچی ہوتی رہتی ہے۔ آپ تڑخ جاتے ہیں اور جو پہلے سے تڑخے ہوئے ہوں وہ دہک جاتے ہیں۔ نہ کوئی تڑخ نہ دھواں مگر آگ ایسی کہ جو ٹکرائے وہ بھی بھنور میں آجائے۔ طواف سب کو برابر کردیتا ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہو یا غریب، دنیا کے بڑے، ارب پتی، مالدار، رکھ رکھاؤ، ذات و کنبے والے، اختیارات و جائیداد والے، ایسے لوگ جو گنتی کے ہوں یہاں کسی گنتی میں نہیں رہتے۔ بس سبھی گول گول گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کسی پر احترام و رعب کی ایسی گرفت کہ خوشی کے پر کٹ جائیں تو کوئی تشکر میں ایسا ڈوبا کہ دھمال ڈالنے کو جی چاہے۔ کسی کا دل منزل پر پہنچ کر پاش پاش ہوجائے تو کسی کے ذرّے حجر اسود کو چومتے نظر آئیں۔ نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت، سب کے سب زائر جو طواف کرتے چلے جا رہے ہیں۔
سب میں شامل پر سب سے الگ۔ سب سے کٹ کر ایک کی حاضری میں، ہستی اور نیستی کے درمیان جھومتے ہوئے لوگ، اپنے دلوں کو کعبۃ اللہ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے۔ کیا عجیب بات ہے کہ لوگ دوڑ رہے ہیں، منظر ساکت ہے۔ قرب ریزہ ریزہ کردیتا ہے اور زائرین کرچی کرچی ہو کر حرم مکہ میں پڑے رہتے ہیں۔ حج کے دنوں میں طواف سے بڑھ کر کوئی اور لذت نہیں۔ یہ وقت ہے اللہ کے ذکر میں، اللہ کی ذات میں سفر کرنے کا، اس کی یاد میں شرابور ہونے کا اور جو شرابور ہوجائے اسے رکھ رکھاؤ نہیں جچتا۔ کہہ دینی چاہئیے دل کی بات کہ مالک سب سنتا ہے۔
حج ذکر بھی تو ہے اپنے محبوب کا، اپنے یار کا۔ اس پاک پروردگار کا جسے بن دیکھے مانتے چلے آئے ہیں۔ مسجد حرام میں حاجی اپنے جوتوں کے ساتھ ساتھ اپنا علم، اپنا مسلک، اپنی آن، اپنی رائے، اپنی مسند، اپنا عمامہ، اپنی دستار، اپنی دولت، اپنی دنیا، اپنا دین سب کچھ اُتار کے باہر رکھ دیتا ہے اور صرف خالص بندہ بن کر اندر جاتا ہے اور کسے کیا خبر کہ واپسی پر کیا کیا واپس ملے گا یا سب کچھ ہی چھن جائے گا۔ حج لاڈ بھی تو ہے کہ اللہ چن کر چیدہ چیدہ بندوں کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ اگر آپ کو صدر یا وزیراعظم دعوت پر بلالیں اور لوگوں کو بتا بھی دیں کہ آپ کو بلایا ہے تو آپ کی خوشی دیدنی ہوگی۔ حاجی اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ علی الاعلان، ببانگ دہل وہ جھومتا جھامتا، اس کے دربار میں حاضر ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر،
سنبھل کر پاؤں رکھنا حاجیوں طیبہ کی گلیوں میں
کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بے کار ہوجائے
خود ستائی سے مارے ہوئے لوگوں کی ٹریٹمنٹ کا مرکز بھی تو ہے کہ حقیقت کھلتی ہے کی اللہ اللہ ہے، بندہ پھر بندہ ہے۔ حج گناہگاروں کی جنت بھی تو ہے کہ ڈھیروں ثواب سمیٹتے ہیں اور سارے گناہ معاف کروالیتے ہیں۔ کردہ بھی، ناکردہ بھی۔ گناہ بھی، احساس گناہ بھی۔ حج کی مشقت سارے کس بل نکال دیتی ہے، گناہوں کی شرمندگی بھی، نیکیوں کا بھرم بھی، تکبر کا جوبن بھی، عاجزی کا غرور بھی، نیکیوں کی تکریم بھی، گناہوں کا امتیاز بھی۔ پاکھنڈیوں کا سوانگ بھی، نیکوکاروں کی معرفت بھی۔ اس کی شان اظہر من الشمس ہوتی ہے۔ اس کی قدرت کی تجلی کتنے ہی بہروپیوں کو اصل کر دیتی ہے۔
حج طلب بھی تو ہے جو طالب کو مطلوب کی طرف کھینچتی ہے اور وہ طلب کی عظمت کا اعتراف کئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ بیشک طلب سے بڑی منزل کوئی نہیں۔ یافت تو ایک اتفاقیہ امر ہے۔ انعام تو طلب پر ہے، تلاش پر، جستجو میں، سفر میں۔ یہ سفر ہی تو ہے جس میں آنے والی مشکلات کو جھیلتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ راستہ ان ہی کا تو مارا جاتا ہے جن کے پہنچنے کا خوف ہو ورنہ شیطان کو اور بیسیوں کام پڑے ہیں وہ خوامخواہ اپنا وقت کیوں برباد کرے۔ حج کے سفر میں طلب کو سینک ملتی ہے جس سے وہ دل میں پختہ ہوجاتی ہے۔ محبوب سامنے ہو تو طلب میں اُبال آجاتا ہے۔ ایک کلائمکس ہوتا ہے۔ اِسے وہ سمجھیں جس نے کبھی عشق کیا ہو یا وہ جو جنس مخالف سے آگ لے کر نفس کو جلانے کا منکہ جانتے ہوں۔
حج دعا بھی تو ہے۔ مانگنا اور بس مانگتے رہنا۔ بے بسی، آنسو، منت، سماجت۔ جس سے مانگا جا رہا ہے اس کی عظمت کا اعتراف، گناہوں سے چھٹکارا، جہنم سے خلاصی، مجبوری کی انتہا، قرب کی ابتدا۔ گناہوں کا پیندہ نہیں ہوتا اور نیکیوں کی چھت۔ پیچھے ہٹتے رہنے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے اور آگے بڑھنے کی منزل کبھی نہیں آتی۔ ان 2 سروں کو ملا دینے کا نام حج ہے کہ بندہ پھر سے شروع کرے۔ دیوالیہ ہوجائے، ایک نیا آغاز لے۔ جو وہ کرسکتا ہے وہ کرے باقی اللہ جانے اور اُس کا کام۔ کچھ لوگ اللہ کے ذکر سے ایسے بھر جاتے ہیں جیسے بھری بہار میں انار اپنے رس سے۔
حج پناہ بھی تو ہے، زمانے کے فسادات سے، ظلم سے، اپنے آپ سے، اپنے نفس سے۔ بقول ممتاز مفتی اعضائے انسانی میں زبان وہ واحد عضو ہے جو جھوٹ بولنے پر قادر ہے باقی اعضاء تو سچ ہی بولتے ہیں۔ اِس زبان سے پناہ بھی تو حج ہی میں ملتی ہے (شاید)۔
حج ’’میں‘‘ سے ’’تو‘‘ کا سفر ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ عجز بے نام ہوا کرتا ہے۔ جس کی تشہیر کی جاسکے وہ عجز تھوڑا ہی ہے۔ آئیں چلیں اللہ کو راضی کرنے کے لئے، اللہ کی دی ہوئی جان کے ساتھ، اللہ کے دئیے ہوئے مال سے، حاضری دے آئیں۔
ہشیار رہیئے گا کہ صدا ’’اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘ ہی آئے۔ اے سامان، اے گولڈ، اے فیس بُک، اے رشتے دار، اے نفس یا اے خاندان نہ آ جائے۔
کبھی اپنے دل کے اندر تجھے دیکھتے تو رُکتے
تیرے کاخِ بےمکیں کا یہ طواف کرنے والے
ذیشان عثمانی
تیرے سوا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ ساری تعریفیں اور سب نعمتیں تیری ہیں، اور ملک اور بادشاہت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔ آج کل حج کا سیزن ہے ہر ایک اپنے ملنے والوں کو اپنے سفر کی خوشخبری سنا رہا ہے۔ کوئی لوگوں سے ملاقات کرکے معافیاں مانگ رہا ہے تو کوئی ڈائری میں اُن تمام لوگوں کے نام لکھ رہا ہے جنہوں نے دعا کا کہا ہے۔ کوئی سفری انتظامات میں پریشان ہے تو کوئی مناسکِ حج کے حفظ میں مصروف۔ عبداللہ سوچا کرتا کہ آخر حج ہے کیا؟ کیوں ہم سب کام چھوڑ کر کچھ دنوں کے لئے بیت اللہ چلے جائیں؟ وادی عرفات میں قیام کریں، منیٰ و مزدلفہ میں رُکیں، شیطان کو کنکریاں ماریں، طواف کریں؟ اسلام کا ایک رکن اور زندگی میں ایک بار فرض تو سمجھ آتا ہے مگر وہ ایسی کیا چیز ہے جو اسے تمام دوسری عبادتوں سے ممتاز بناتی ہے؟
0 Comments