واٹر سائیکل کیا ہے؟ یہ ایک روزانہ کا سائنسی مظہر ہے جسے ہم ہمہ وقت
مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ سورج کی تپش کی وجہ سے پانی سمندروں، جھیلوں دریاؤں اور پانی کے دیگر ذخیروں سے بخارات کی شکل میں تبدیل ہو کر ہوا میں شامل ہوتا رہتا ہے جب یہ ہوائیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے راستے میں حائل پہاڑوں کی وجہ سے اُوپر اُٹھتی ہیں تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں اور اِن میں موجود بخارات بادلوں کا روپ ڈھال لیتے ہیں۔ مزید سردی پہنچنے اور بادلوں کے درمیان بجلی کی چمک دمک سے یہ بادل پانی کی بوندوں میں تحلیل ہو کر برسنے لگتے ہیں۔ اس بارش کے پانی کا بہت سا حصہ دریاؤں اور ندی نالوں میں سے بہتا ہوا سمندروں میں جا گرتا ہے اور اس کا کچھ حصہ زمین میں جذب ہو کر جمع ہوتا رہتا ہے اس سے چشمے پھوٹتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ واٹر سائیکل (گردش آب) ایک فرانسیسی سائنسدان برنارڈ پالیسی نے 1570ء میں دریافت کیا۔
اس سے پہلے بالخصوص رسول اللہؐ کے زمانے سے پہلے اس بارے میں نہایت ناقص نظریات پائے جاتے تھے لوگ حقیقت سے نا آشنا تھے۔ سب سے زیادہ قابل قبول نظریہ یونانیوں کا یہ تصور تھا کہ ہوا کے دباؤ کی وجہ سے سمندروں کا پانی خشکی میں نفوذ کر جاتا ہے جو مختلف جگہوں سے چشموں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ نظریہ اس قدر عام تھا کہ اس وقت کے کئی نامور سائنسدان بھی اسے صحیح گردانتے تھے۔ ذرا غور کیجئے گا کہ اس حقیقت کو اس وقت نازل ہونے والی اللہ کی کتاب کیسے بیان کرتی ہے:- ’’اور ہم نے آسمان سے اندازے کے ساتھ پانی اُتارا۔ پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا۔ اور ہم اِس کو اُڑالے جانے پر بھی قادر ہیں‘‘، ۲۳: ۱۸۔ ’’اور ہم نے اس سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغ اُگائے۔ ان میں تمہارے لئے بہت سے میوے ہیں اور ان میں سے تم کھاتے ہو‘‘ ۲۳: ۱۹۔
’’اور ہم نے بھری ہوئی ہوائیں چلائیں پھر ہم نے آسمان سے پانی اُتارا۔ پھر تم کو وہ پانی پلایا اور تمہارے پاس اس کا خزانہ نہیں ہے۔ 15: 22 ’’اور اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ بادل کو اُبھارتی ہیں اور ہم ان کو ایک بے جان شہر کی طرف ہانک لے جاتے ہیں پس اس سے ہم زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح دوبارہ بھی اُٹھنا ہو گا‘‘ ۳۵: ۹۔ ’’اللہ ہی ہے جو ہوائیں چلاتا ہے پھر وہ بادل اُٹھاتی ہیں پھر وہ انہیں آسمان میں جیسے چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور ان کو تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تو مینہ کو دیکھتا ہے جو ان کی بیچ سے نکلتا ہے۔ پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برسا دیتا ہے تو وہ ناگہاں بہت خوش ہو جاتے ہیں‘‘، ۳۰: ۴۸ ’’اور وہی ہے جو پہلے اپنی رحمت سے خوش خبری لانے والی ہوائیں بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اُٹھا لیتی ہیں تو پھر ہم ان کو ایک مرے ہوئے شہر کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر اس سے پانی برساتے ہیں پھر اس (پانی) سے ہر قسم کے پھل پیدا کرتے ہیں اسی طرح ہم مُردوں کو زندہ کرکے باہر نکالیں گے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ ۷:۵۷ ’’اور وہی ہے جس نے ہوائیں چلائیں جو اس کی رحمت کے آگے آگے خوشخبری دینے والیاں ہیں اور ہم نے آسمان سے پاک صاف پانی اُتارا تا کہ اس سے مرے ہوئے شہر کو زندہ کر دیں اور اس پانی کو بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلائیں جو ہم نے پیدا کئےO ۲۵: ۴۷،۴۸۔
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اُتارا۔ پھر اس کو زمین کے چشموں میں جاری کر دیا۔ پھر وہ اس سے کھیتی اُگاتا ہے، جس کے طرح طرح کے رنگ ہیں پھر وہ تیاری پہ آجاتی ہے تو تو اس کو زرد دیکھتا ہے۔ پھر وہ اس کو چُورا چُورا کر دیتا ہے بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے۳۹: ۲۱ قرآن حکیم میں نہایت صحیح سائنسی انکشافات کی اُس دور میں موجودگی جبکہ دنیا ان سے بالکل ہی نا بلد تھی اس حقیقت کا مظہر ہے کہ یہ کتاب کسی عالم الغیب و الشہادہ اور بہت ہی دانا و بینا ہستی کی طرف سے رسول اللہ ؐ پر نازل ہوئی ہے۔
ونگ کمانڈر(ر)محمد اقبال چوہدری
مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ سورج کی تپش کی وجہ سے پانی سمندروں، جھیلوں دریاؤں اور پانی کے دیگر ذخیروں سے بخارات کی شکل میں تبدیل ہو کر ہوا میں شامل ہوتا رہتا ہے جب یہ ہوائیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے راستے میں حائل پہاڑوں کی وجہ سے اُوپر اُٹھتی ہیں تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں اور اِن میں موجود بخارات بادلوں کا روپ ڈھال لیتے ہیں۔ مزید سردی پہنچنے اور بادلوں کے درمیان بجلی کی چمک دمک سے یہ بادل پانی کی بوندوں میں تحلیل ہو کر برسنے لگتے ہیں۔ اس بارش کے پانی کا بہت سا حصہ دریاؤں اور ندی نالوں میں سے بہتا ہوا سمندروں میں جا گرتا ہے اور اس کا کچھ حصہ زمین میں جذب ہو کر جمع ہوتا رہتا ہے اس سے چشمے پھوٹتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ واٹر سائیکل (گردش آب) ایک فرانسیسی سائنسدان برنارڈ پالیسی نے 1570ء میں دریافت کیا۔
ونگ کمانڈر(ر)محمد اقبال چوہدری
0 Comments