موجودہ دَور کی تمام تر ترقی و عروج اور سہولیات کے باوجود ہر انسان پریشان ہے کوئی معاشی پریشانی کا شکار ہے تو کوئی سیاسی دُکھوں میں مبتلا ہے۔ کسی کو سماج کا غم لاحق ہے تو کوئی مذہب سے دوری کے نقصانات پر متفکر ہے۔ کسی کو سٹیٹس (Status) برقرار رکھنے کی فکر ہے تو کوئی غربت و ذلت پر شکوہ کناں ہے۔ غرض ہر نفس بے اطمینانی اور بے سکونی کا شکار ہے اور کہہ رہا ہے :
سکوں دُنیا کے گوشے میں نہیں ممکن ، نہیں ممکن
اِک عالمِ اضطرابی ہے جدھر نظریں اُٹھاتے ہیں
حالانکہ ’’سکون‘‘ حاصل کرنے کا بہت آسان ، سادہ اور تیربہدف ’’نسخہ‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ
الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب
ترجمہ : بلاشبہ دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکون و اطمینان پاتے ہیں۔ ہم بے سکونی کا شکوہ تو کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب ہماری ’’کرنی‘‘ کا پھل ہے۔ ہم نے اللہ کے شکر گزار بندے بننے کی بجائے کفران نعمت کیا اسی لئے ہمارا رزق کم ہو گیا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے۔ ترجمہ : اور جو لوگ ہمارے ذکر سے غافل ہوتے ہیں ہم ان کی معیشت کو تنگ کر دیتے ہیں اور قیامت کے دن ان کو اندھا اُٹھائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم تو دُنیا میں دیکھتے تھے پھر ہمیں اندھا کیوں اُٹھایا گیا ہے؟ تو جواب ملے گا کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے ہماری نعمتوں کو جھٹلایا‘‘۔ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار نا ممکن ہے۔ سورۃ ’’الرحمن‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کچھ نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور بار بار اس سوال کو دہرایا ہے :
فبای الآءِ ربکماتکذبن
ترجمہ : تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
’’سکونِ قلب‘‘ حاصل کرنے کے لئے ہمیں اس سوال کا یہ جواب عملی طور پر دینے کی ضرورت ہے‘‘۔
اللھم ربنا لا نکذب بای من اٰلائک
ترجمہ : اے اللہ ہم تیری نعمتوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جھٹلاتے۔
’’ شکوہ‘‘ کرنا شاید ہماری عادت بنتی جا رہی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سمیت ہر کسی سے شکوہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن شکوہ پیدا ہونے کے اسباب پر غور کرنے کے فرض سے غافل ہو جاتے ہیں۔ نوجوان نسل سے بھی حسب روایت ہمیں بہت سے شکوے ہیں۔ ہم ان کی بے ادبی ، بد اخلاقی ، بد لحاظی ، نا فرمانی ، ڈھٹائی ، بد عملی ، سستی ، خود غرضی ، روایات سے دوری، دین سے دوری ، ظاہر پرستی فیشن پرستی ، مغرب اور میڈیا کی اندھی تقلید ، وقت کی ناقدری ، محنت سے جی چرانا ، کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور موبائل کے غلط استعمال ، حد سے بڑھے ہوئے اعتماد اور نہ جانے کس کس خامی کے شاکی ہیں اور ان سب خامیوں پر مجلسوں ، محفلوں ، مذاکروں ، مباحثوں ، سکولوں ، کالجوں ، دفتروں اور گھروں میں دن رات لمبی لمبی بحثیں کرتے ہیں۔ کڑھتے ہیں لیکن ان بے شمار خامیوں اور خرابیوں کی وجوہات تلاش کرنے کی اوّل تو جستجو ہی نہیں کرتے اور اگر کوشش کرتے بھی ہیں تو وجوہات ہمیں ’’ دکھائی‘‘ ہی نہیں دیتیں۔
حالانکہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ نسل نو کی ان خامیوں کے اصل ذمہ دار ہم خود ہیں، کیونکہ بچے کی شخصیت پر اپنے ماں باپ ، گھر کے دیگر افراد ، اساتذہ اور ارد گرد کے حالات اور ماحول کا بے حد اثر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے بزرگوں کا ادب و احترام کریں گے تو بچے بھی ان شاء اللہ ہمارا ادب و لحاظ کریں گے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل رکھیں گے اور اس سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں گے، شعائرِ اسلام کی پابندی کریں گے‘قرآن حکیم کو مکمل ضابطہء حیات سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں گے، صرف حقوق کا نہیں،بلکہ فرائض کا بھی خیال رکھیں گے، سلیقہ شعاری ، نظم و ضبط ، فضول خرچی ، کنجوسی سے اجتناب کریں گے۔ صرف صفائی جسم و لباس ہی نہیں، بلکہ صفائی قلب و ذہن و عقیدہ کابھی اہتمام کریں گے، توازن و اعتدال کا راستہ اپنائیں گے، تن آسانی کی بجائے محنت کی عظمت کا اعتراف کریں گے، اپنا فارغ وقت دوسروں کی عیب جوئی ، غیبت ، بہتان طرازی ، دروغ گوئی ، چغل خوری کی بجائے اپنے محاسبہ اور اولاد بالخصوص لڑکیوں کی تربیت پر صرف کریں گے اور ہماری شخصیت دین و دُنیا کا حسین امتزاج ہوگی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے بچے ’’بگڑی ہوئی نسل‘‘ کا طعنہ سنیں۔
’’تربیت‘‘ کسی نسل کو ’’سنوارنے‘‘ یا ’’بگاڑنے‘‘ میں اہم کردار ادا کرتی ہے اگر ہم نسل نو کی تربیت صحیح خطوط پر کریں گے تو ہی وہ آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت کر پائے گی پھر انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ یا کسی نسل سے شکوہ کناں ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بقول علامہ اقبال:
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
میرے خیال میں نوجوان نسل میں جہاں بہت سی خامیاں ہیں وہاں وہ بہت سی خوبیوں کا بھی مجموعہ ہے۔ اس میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہے، وہ ذہین ہے، پُراعتماد ہے، سیکھنے کا جذبہ ہے، مضبوط ارادوں کی مالک ہے، باشعور ہے، بہادر ہے، پُرجوش ہے، ترقی کرنے کی صلاحیت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی صحیح تربیت و رہنمائی کی جائے:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
موجودہ نسل کو یہ نمی فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس نمی کے بغیر زرخیزی کی خواہش عبث ہے۔ اگر ہم گلاب بوئیں گے تو ہی گلاب کی خوشبو سے معطر ہو سکیں گے، ببول بونا اور گلاب کی خواہش کرنا سب سے بڑی حماقت ہے۔ میں نسل نو سے مایوس نہیں بلکہ ’’خوش اُمید‘‘ ہوں کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنی خامیوں کی اصلاح کرے گی اور اپنے عمل سے ثابت کرے گی کہ وہ صحیح مسلمان اور محبِ وطن ہے۔جب کوئی چیز اپنے مقصد اور مدار سے ہٹ جاتی ہے تو وہ اپنا مقام کھو دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال حضرت انسان کا ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے مقصد ’’عبادتِ الٰہی‘‘ اور ’’دردِ دل‘‘ سے ہٹ گیا تو اس کا جو حال ہوا ، اس کی وضاحت قرآن مجید میں ان الفاظ میں کی گئی۔
ثُمَّ رَدَدنٰہُ اَسفَلَ سفِلِینo
ترجمہ : پھر ہم نے اس کی حالت کو بدل کر پست کر دیا،حالانکہ جب تک انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات ، حضرت محمدﷺ کے اسوۂ حسنہ اور قرآن حکیم جیسے مکمل ضابطہء حیات پر عمل پیرا ہوتا رہا، مادیت پرستی ، بے حسی اور اصل مقصد سے دوری سے گریز کرتا رہا تو اللہ سبحانہ، و تعالیٰ نے اسے یہ نوید دی تھی کہ
وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِی اٰدَم
اور ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی
اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت و عظمت کو بحال کرنا چاہتے ہیں اور تمام تفکرات و پریشانیوں سے نجات پانا چاہتے ہیں تو ہمیں توحید باری تعالیٰ کا صرف اقرار باللسان نہیں،بلکہ تصدیق بالقلب کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہوگا۔ دین و دُنیا میں توازن رکھنا ہوگا، کفران نعمت سے بچنا ہوگا، اخلاقِ حسنہ کو شعار زندگی بنانا ، اخلاقِ رذیلہ سے اجتناب کرنا ہو گا، امر و نواہی پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہوگا، زندگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی قدر کرنا ہوگی تاکہ اللہ جل شانہ بھی ہم سے خوش ہو اور خلق اللہ بھی۔ ساتھ ساتھ یہ
دُعا بھی کثرت سے کرنی چاہئے کہ
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنےَا حَسَنَۃً وَ فِی الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارo
ترجمہ : اے ہمارے رب ہمیں دُنیا و آخرت دونوں کی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
(آمین ۔ ثم آمین)
رضیہ رحمان
0 Comments