فرانس کے شہر نائس میں سعودی عرب کے تعاون سے تعمیر ہونے والی مسجد کو مقامی منتظمین سے 15 سال سے جاری کشمکش کے بالآخر کھول دیا گیا۔
نکوئس ان نور انسٹیٹیوٹ کو ہفتے کو ٹاؤن کے سابق میئر کرسچین ایستروسی کے متبادل کے طور پر آنے والے فلپ پرادل کی جانب سے مسجد کھولنے کے اجازت مل گئی۔ شہر کے سابق میئر کرسچین ایستروسی مسجد کی تعمیر کے سخت مخالف تھے اور جنوبی شہر میں اس مسجد کو کھولنے سے روکنے کیلئے انہوں نے اپریل میں فرانسیسی حکومت کو عدالت لے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
انہوں نے عمارت کے مالک اور سعودی عرب کے وزیر اسلامی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز پر شریعت کی وکالت کرنے والا قرار دیا جبکہ ان پر الزام عائد کیا کہ وہ جزیرہ نما عرب میں تمام گرجا گھروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ 2008 سے میئر کے منصب پر فائز ایستروسی نے کہا کہ 2002 میں ان کے پیشرو کی جانب سے شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ غیر قانونی ہے۔ ادھر وکیل اور مقامی مذہبی ایسوسی ایشن کے سربراہ اوسینی مبارک نے مسجد کھلنے کو حقیقی خوشی سے تعبیر کیا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں اوسینی مبارک نے کہا کہ اس جیت میں خودپسندی کا جذبہ کارفرما نہیں، یہ جمہوریہ فرانس کی اقدار کے مطابق فرانس میں قانون اور اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے کے حق کی جیت ہے۔
دروازہ کھلتے ہی 880 افراد کی گنجائش کی حامل اس مسجد میں مسلمان نماز عصر کی ادائیگی کیلئے داخل ہوئے۔ اپنے بیٹے محمد کے ساتھ عبادت کیلئے آنے والے ایک نمازی عبدالعزیز نے کہا کہ ایک مسلمان اپنے گھر پر خدا کے گھر کو ترجیح دیتا ہے۔ خواتین کیلئے مختص کمرے میں پڑوسی سے آنے والے خاتون عماریہ نے کہا کہ آج ہم خوش ہیں۔ اس جگہ کے حصول پر مطمئن اور خوش ہیں۔ ہم اپنے آپ کو چھپا چھپا کر تھک چکے ہیں کیونکہ ہم چوہے نہیں ہیں۔ مذکورہ مسجد کی تعمیر کا آغاز ڈسٹرکٹ آفس میں 2003 میں شروع ہوا تھا۔
0 Comments