یوم الفُرقان غزوۂ بدر - یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

یوم الفُرقان غزوۂ بدر - یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن

غزوۂ بدر اسلام کا سب سے پہلا اور عظیم الشان معرکہ ہے۔ بدر میں حضور سید عالم ﷺ اپنے تین سو تیرہ جان نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ آگے دو سیاہ رنگ کے اسلامی پرچم تھے، ان میں ایک حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ کے ہا تھ میں تھا۔ جب رزم گاہ ِبدر کے قریب پہنچے تو امام المجاہدین حضور سرور دو عالم ﷺ نے حضرت علیؓ کو چند منتخب جان بازوں کے ساتھ غنیم کی نقل و حرکت کا پتا چلانے کے لیے بھیجا اور آپؓ نے نہایت خوبی و مہارت کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔

17 رمضان المبارک، جمعۃ المبارک کے دن جنگ بدر کی ابتدا ہوئی۔ بدر ایک گاؤں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریبا اسّی میل کے فاصلے پر ہے، جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔ حضور سید عالم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے جب ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اسی اثنا میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے والے قافلے کو لوٹنے آ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آگیا، جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا۔
حضور نبی کریم ﷺ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا اور امر واقعہ کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے جواب میں نہایت جان نثارانہ تقریریں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہؓ (خزرج کے سردار) نے عرض کی، یا رسول اﷲ ﷺ! خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو بھی تیار ہیں۔ حضرت مقدادؓ نے کہا، ہم موسیؑ کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ ﷺ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بل کہ ہم آپ ﷺ کے دائیں سے، بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ ﷺ کے تابعدار ہوں گے، جہاں آپ ﷺ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپ ﷺ بسم اﷲ کیجیے اور جنگ کا حکم فرمائیں، انشاء اﷲ اسلام ہی غالب آئے گا۔

حضور سرکارِ دو عالم ﷺ نے جب صحابہ کرامؓ کے اس سرفروشانہ جذبے اور جوش ِایمانی کو دیکھا تو آپؐ کا چہرہ اقدس فرط ِمسرت سے چمک اٹھا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لیے بارگاہِ خداوندی میں دعا خیر فرمائی، اور ارشاد فرمایا، خداوند قدوس نے مجھ سے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ اﷲ تعالی کا وعدہ سچا ہے اور قسم ہے اﷲ کی! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا۔ آپؐ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کی قتل کی جگہ کی نشان دہی فرمادی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہیں پر قتل ہوا۔
(مشکوۃ ، مدارج النبوت)

لشکر اسلام کی تعداد
حضور سید عالم ﷺ 12رمضان المبارک 2 ہجری کو اپنے تین سو تیرہ جان نثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپؐ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپؐ نے لشکر اسلام کا جائزہ لیا اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ ایک کم سن سپاہی بھی اس میں شامل تھے، انہیں جب واپسی کے لیے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور اکرمؓ ﷺ نے ان کا یہ جذبہ جہاد و شوقِ شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرما دی۔ لشکر اسلام کی کل تعداد 313 تھی، جس میں سے 60 مہاجرین اور 253 انصار تھے۔

یہ بے نظیر و بے مثال لشکر اسلام 16رمضان المبارک بہ روز جمعرات2 ہجری کو میدان بدر پہنچ گیا۔ ادھر مکہ معظمہ سے قریشِ مکہ بڑے ساز و سامان کے ساتھ نکلے تھے۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر اور سو سواروں کا دستہ تھا۔ قریش کے امراء سب شریکِ جنگ تھے اور امرائِ قریش ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا، کو اس طاغوتی فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تھا۔ 17رمضان المبارک کی مبارک شب تھی، تمام مجاہدینِ اسلام آرام فرما رہے تھے جب کہ حضور رحمت دوعالم ﷺ نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گزاری۔ صبح کو نماز فجر کے لیے تمام سرفروشان اسلام مجاہدین کو بیدار کیا اور نمازِ فجر کی ادائی کے بعد قرآن مجید کی آیاتِ جہاد تلاوت فرما کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدینِ اسلام کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش و جذبے کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور مجاہدین جلد از جلد جنگ کے لیے تیار ہونے لگے۔

صف آرائی کا دل نشین منظر
حضور نبی کریم ﷺ کے دست اقدس میں ایک تیر تھا، اس کے اشارے سے آپ مجاہدین کی صفیں قائم فرما رہے تھے۔ مہاجرین کا علم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو، خزرج کے علم بردار حباب بن منذرؓ اور اوس کے علم بردار سعد بن معاذؓ مقرر فرمائے۔ چناںچہ لشکر اسلام کی صف آرائی ہوئی اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ حضور سید عالم ﷺ نے میدانِ بدر میں اپنے جان نثار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سامانی کو بھی دیکھا تو بارگاہِ خداوندی میں یوں التجا کی ’’ اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اﷲ! اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘
(صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)

حضور سرور دوعالم ﷺ کچھ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا کر رہے تھے کہ آپ ؓ کی چادر مبارک آپؐ کے دوش اقدس سے گرگئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادر مبارک اٹھا کر آپ کے کاندھے مبارک پر ڈال دی اور عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ! اﷲ تعالی نے جو فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، وہ ضرور پورا فرمائے گا۔ (البدایہ والنہایہ)

فرزندانِ اسلام کی سرفروشی
دستور عرب کے مطابق جب جنگ کی ابتدا ہوئی تو مشرکین میں سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ میدانِ کارِزار میں نکلا۔ لشکر اسلام میں سے حضرت امیر حمزہ، حضرت علی المرتضی اور حضرت عبیدہ رضی اﷲ عنہم، عتبہ، ولید اور شیبہ کے مقابل ہوئے اور یوں دست بہ دست جنگ شروع ہوئی تو حضرت امیر حمزہؓ نے عتبہ بن ربیعہ کو واصل جہنم کر دیا جب کہ حضرت علیؓ نے ولید بن عتبہ کو جہنم رسید کیا، حضرت عبیدہؓ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہوگئے، یہ دیکھ کر حضرت علی المرتضیؓ آگے بڑھے اور اپنی ضربِ کے ایک ہی وار سے شیبہ بن ربیعہ کو بھی جہنم رسید کر دیا۔
تینوں مشرکین سرداروں کی لاشیں زمین پر ڈھیر ہوگئیں۔ آنِ واحد میں مشرکین کے تین سورماؤں کے قتل سے ہل چل مچ گئی، کیوںکہ قریش کے جب یہ تینوں سرداروں کو اسلام کے شاہینوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تو اس اندیشے سے کہ کفار حوصلہ نہ ہار دیں، ابوجہل نے بلند آواز سے یہ نعرہ لگایا، ہمارا مددگار عزی ہے اور تمھارے پاس کوئی عزی نہیں جو تمھاری مدد کرے۔

حضور سید عالم ﷺ نے فرزندانِ اسلام کو حکم دیا کہ اس کے جواب میں یہ نعرہ بلند کریں۔ ’’ اﷲ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول جہنم کا ایندھن بنیں گے۔‘‘
اس کے بعد پھر عام لڑائی شروع ہوگئی تو حضور اکرم ﷺ نے باہر نکل کر ایک مٹھی کنکروں کی اٹھائی اور لشکر کفار کی طرف پھینکی اور فر مایا ’’شاھت الوجوہ‘‘ یعنی برے ہوگئے یہ چہرے۔ چناںچہ کوئی کافر ایسا نہیں بچا جس کی آنکھوں اور ناک میں ان سنگ ریزوں سے کوئی چیز نہ پہنچی ہو۔ یہ سنگ ریزے ہر ایک کافر جنگ جُو کو لگے اور ان کی قوت و طاقت بالکل ٹوٹ گئی اور لشکر کفار میں بھگدڑ مچ گئی۔

قرآن پاک میں اﷲ تبارک و تعالی نے ان کنکریوں کا مارنا یوں بیان فرمایا ہے ’’ اور (اے حبیبؐ) آپ نے (حقیقتا وہ خاک) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (خاک) پھینکی تھی، لیکن وہ (خاک) اﷲ تعالی نے پھینکی۔ (الانفال: 17)
جب دست بہ دست عام لڑائی شروع ہوگئی تو لشکر اسلام کا ہر سپاہی پورے جوش و جذبے کے ساتھ لڑ رہا تھا اور سر دھڑ کی بازی لگا رہا تھا۔ اسلام کا ایک ایک سپاہی کفار کے بیسیوں سپاہیوں پر بھاری تھا اور ان کو جہنم رسید کر رہا تھا۔ ایسے ہی جاںباز و جان نثار اپنی شجاعت و بہادری اور جذبہ جان نثاری کی وجہ سے اپنے ملک و ملت اور دین پر پروانوں کی طرح اپنی قیمتی جان قربان کرکے اﷲ تعالی کے دربار میں سرخ رو ہوتے ہیں۔

٭ مسلمانوں کی شاہ کار اور تاریخی فتح
میدانِ بدر میں لشکر اسلام کے پاسبان و محافظ اور جاں باز و جان نثار سپاہی کچھ اس بے جگری سے لڑے کہ تھوڑے ہی وقت میں کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنم کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کی مستجاب دعاؤں کے صدقے خدائے رب ذوالجلال کی تائید و نصرت کی بہ دولت کفار کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کفار کے تقریبا ستر آدمی قتل ہوئے اور تقریبا اتنے ہی افراد کو قیدی بنا دیا گیا اور کفار کے وہ سردار جو شجاعت و بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ سب کے سب مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوکر جہنم کا ایندھن بن گئے اور جو کافر زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جا کر دم لیا۔ لشکر اسلام میں سے صرف 14 خوش نصیب سرفروش مجاہدوں نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت الفردوس میں داخل ہوگئے، جن میں سے چھے مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔

مورخین اس معرکہ کو غزوۂ بدرالکبری اور غزوۂ بدرالعظمی کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن اﷲ تبارک و تعالی نے اپنے لا ریب اور لا فانی کلام قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو یوم الفرقان (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل، خیر و شر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکار ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی پتا چل گیا کہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا نقیب کون ہے۔

مولانا محمد ناصر خان چشتی

Post a Comment

0 Comments