دوپہر کا وقت تھا۔ ایک سایہ دار درخت کے نیچے وہ تنہا آرام فرما تھے۔ ان کی
تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ ایک دشمن ادھر آ نکلا۔ اس نے تلوار درخت سے اتاری اور سونت کر کہنے لگا، اب کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ انہوں نے اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا ’’ﷲ‘‘۔ اس دشمن پہ رعب طاری ہوگیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ انہوں نے تلوار اٹھا کر کہا، بتا اب تجھے کون بچائے گا؟ اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس نے امان طلب کی تو انہوں نے فوراً اسے معاف کردیا۔
یہ عظیم ترین شخصیت کوئی اور نہیں، ہمارے آقا اور محبوبِ کائنات محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی تھی، جو ایک غزوے سے واپسی پر یہاں تشریف فرما تھے۔ آپؐ کی قوت برداشت اور ضبط و تحمل مثالی تھا۔ آپؐ کی پوری حیات طیبہ عفو و درگزر، رحمت، حلم و تحمل، صبر و ترحم اور برداشت و رواداری سے عبارت ہے۔
آپؐ نہ صرف اپنے اہل خانہ اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ تحمل و برداشت کا معاملہ فرماتے، بل کہ اپنے دشمنوں سے بھی عفو و درگزر اور رواداری سے پیش آتے۔
نہایت سخت اور سنگ دل دشمن نے بھی جب آپؐ سے فریاد کی اور امان کا طالب ہوا، تو آپؐ نے عفو و درگزر کرنے اور امان بخشنے میں کبھی دریغ نہیں کیا۔
طائف میں پتھر برسانے والے اور تالیاں پیٹ کر تمسخر اڑانے والوں کو بھی آپؐ دعائیں دیتے ہیں۔ ہجرت کے وقت سو اونٹوں کی لالچ میں آپؐ کا تعاقب کرنے والا سراقہ بن جعشم جب قریب پہنچتا ہے، تین مرتبہ گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے ہیں، ہر مرتبہ نکل کر دوبارہ کوشش کرنے والا، آخر میں خط امان طلب کرتا ہے تو آپؐ اسے فوراً امان لکھ دیتے ہیں۔
ابوسفیان جو بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں مسلمانوں کے خلاف مرکزی کردار ادا کرنے اور ہر قدم پر اسلام کے سخت ترین دشمن ثابت ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کو رحمۃ للعالمین ﷺ کی جانب سے نہ صرف امان دی جاتی ہے، بلکہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو، اسے بھی امان ہے۔ احد کے معرکے میں رجز پڑھ کر لشکرِ کفار کا دل بڑھانے والی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کی لاش کی بے ادبی کرنے والی، ان کے سینے کو چاک کر کے کلیجے کو چبانے اور ان کے اعضاء کا ہار بنانے والی ہندہ، جب سر تسلیم خم کرتی ہے، تو آپؐ اسے معاف فرما دیتے ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل کا بیٹا، اسلام کے خلاف متعدد لڑائیاں لڑنے والا عکرمہ جب آپؐ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو آپؐ اس کے خیر مقدم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور اسے معافی نامہ عطا فرماتے ہیں۔ عمیر بن وہب جو اپنی تلوار زہر میں بجھا کر مدینہ آتا ہے اور موقع پا کر آپؐ کا کام تمام کرنے (نعوذباﷲ) کے لیے تاک میں رہتا ہے۔ جب اسی سازش کے دوران گرفتار ہوجاتا ہے تو پرامن طور پر رہا کر دیا جاتا ہے۔ احد کے معرکے میں آپؐ پر تلوار کے وار ہوتے ہیں، دندان مبارک شہید ہو جاتے ہیں، خود کی کڑی سر مبارک کو زخمی کر دیتی ہے۔ آپؐ اس حالت میں بھی صرف یہ فرماتے ہیں: ’’اﷲ میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ جانتی نہیں۔‘‘
فاتح افواج جب مفتوحہ علاقے میں داخل ہوتی ہیں تو لاشوں کے انبار لگے ہوتے ہیں، انتقام کی آگ سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ قربان جائیے اس عظیم فاتح پر جو اس مکہ کو فتح کرنے نکلے جس میں ان پر سخت مظالم ڈھائے گئے، نجاستیں پھینکی گئیں، مذاق اڑایا گیا، طعنے دیے گئے، قتل کی تجویزیں منظور ہوئیں، بالآخر شہر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اس سب کے باوجود فتح کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم عام عفو و امان کا اعلان فرماتے ہیں اور اس دن کو رحم کا دن قرار دیتے ہیں۔
جس ماحول میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آنکھ کھولی وہ جنگ جوئی، خون خواری، دہشت انگیزی اور عدم برداشت میں اپنی مثال آپ تھا۔ ایسے ماحول میں آپؐ کا فلاح انسانیت کے لیے صبر و تحمل، قوت برداشت اور ہمہ جہت رواداری سے کام لینا آپؐ کی رسالت کی روشن دلیل اور نبوت کا اعجاز ہے۔ آپؐ نے اپنی عملی زندگی میں تحمل و برداشت سے معاشرے کو امن کا گہوارا بنا دیا۔ زندگی کے تمام مراحل میں بنی نوع انسان کو پرامن طریقے پر زندگی گزارنے میں راہ نمائی دی۔ آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ تاریخ عالم کے سامنے ایک مشعل راہ کی صورت میں موجود ہے، جس سے روشنی حاصل کرکے سارے عالم میں تحمل و برداشت سے امن کا بول بالا کیا جاسکتا ہے۔
عمر فرید ہزاروی
تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ ایک دشمن ادھر آ نکلا۔ اس نے تلوار درخت سے اتاری اور سونت کر کہنے لگا، اب کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ انہوں نے اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا ’’ﷲ‘‘۔ اس دشمن پہ رعب طاری ہوگیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ انہوں نے تلوار اٹھا کر کہا، بتا اب تجھے کون بچائے گا؟ اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس نے امان طلب کی تو انہوں نے فوراً اسے معاف کردیا۔
0 Comments