حضرت عتبہ بن غزوان کا ایک خطبہ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

حضرت عتبہ بن غزوان کا ایک خطبہ

خالد بن عمیر عدوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمیں حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اوراللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنے کے بعد کہا:

دنیا نے اپنے اختتام کی خبردے دی ہے اوربہت جلد پیٹھ موڑنے والی ہے اوراب دنیا صرف اتنی رہ گئی جتنا برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے اوراب تم دنیا سے اس جہان کی طرف منتقل ہونے والے ہو جو لازوال ہوگا، سو! تم اپنے ساتھ بہترین ماحضر لے کر منتقل ہو، کیونکہ ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک پتھر کو جہنم کے کنارے سے گرایا جائے گا وہ ستر سال تک اس کی گہرائی میں گرتا رہے گا پھر بھی اس کی تہہ کو نہیں پاسکے گا، اورخد ا کی قسم جہنم بھر جائے گی

اور بے شک ہم سے یہ بیان کیاگیا ہے کہ جنت کے دروازے کے ایک پٹ سے لے کردوسرے پٹ تک چالیس سال کی مسافت ہے اورجنت میں ضرور ایک ایسا دن آئے گا جب وہ لوگوں کے رش سے بھری ہوئی ہوگی، اورتم کو معلوم ہے کہ میں ان سات صحابہ میں سے ساتواں تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اور ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوااورکوئی کھانے کی چیز نہیں تھی، حتیٰ کہ ہماری باچھیں چھل گئیں۔

 مجھے ایک چادر مل گئی تو میں نے اپنے اورحضرت سعد بن مالک کے درمیان اس کے دوحصے کئے ، نصف چادر کا میں نے تہبند بنایااورنصف کا حضرت سعد بن مالک نے ، اورآج ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی شہرکا امیر ہے ،اورمیں اس چیز سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اوربے شک خلافتِ نبوت ختم ہوگئی اورآخر میں ہر خلافت ملوکیت سے بدل گئی اورتم ہمارے بعد آنے والے حاکموں کا حال بھی دیکھ لو گے اورتم کو ان کا تجربہ بھی ہوجائے گا۔

خالد بن عمیر نے زمانہ جاہلیت پایاتھا وہ کہتے ہیں کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے 
خطبہ دیا، وہ اس وقت بصرہ کے امیر تھے۔ (شرح صحیح مسلم)

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ اولین صحابہ کرام میں سے ہیں، دوسری 
ہجرت حبشہ میں شریک ہوئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس چلے آئے ۔ ہجرت مدینہ کی سعادت حاصل کی اور حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مواخات قائم کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ تیر اندازی کے لحاظ سے ان کا شمار اپنے فن کے کاملین میں ہوتا تھا۔

اصحاب صفہ میں شامل تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کئی مہمات کی کامیاب قیادت کی۔ تقویٰ ، زہد، جفاکشی اورعاجزی وانکساری کے اوصاف سے مزین تھے۔ تکبر اورغرور سے دور کا بھی علاقہ نہیں تھا۔ فرمایا کرتے تھے میں خدا سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ انسانوں کی نظروں میں حقیر رہنے کے باوجود اپنے آپ کو بڑا سمجھوں۔ (اسد الغابہ)

Post a Comment

0 Comments