غالبًا دسمبر 1918 کا واقعہ ھے کہ میں " رانچی " میں نظر بند تھا ۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلا تو محسوس ہُوا کوئی شخص پیچھے آ رہا ھے ۔ مُڑ کر دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا ۔
" آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟ "
" ہاں جناب ! میں بہت دُور سے آیا ہوں ۔ "
" کہاں سے ؟ "
" سرحد پار سے ۔ "
یہاں کب پہنچے ؟ "
" آج شام کو پہنچا ، میں بہت غریب آدمی ہوں ، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا ، وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے ، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا ۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں ۔"
" افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی ؟ "
" اِس لئے کہ آپ سے قرآنِ مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں ۔ میں نے " الہلال " اور " البلاغ " کا ایک ایک حرف پڑھا ھے ۔"
یہ شخص چند دنوں تک ٹہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا ۔ وہ چلتے وقت اِس لئے نہیں ملا کہ اُسے اندیشہ تھا میں اُسے واپسی کے مصارِف کے لئے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اِس کا بار مجھ پر ڈالے ۔ اُس نے یقینًا واپسی میں بھی مُسافت کا بڑا حصّہ پیدل طے کیا ہو گا ۔
مجھے اُس کا نام یاد نہیں ۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ھے یا نہیں ۔ لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اُس کے نام سے منسوب کرتا ۔ 12 ستمبر 1931 ، کلکتہ
( انتساب ۔ تفسیر سورۃ الفاتحہ ، از مولانا ابُوالکلام آزادؒ ۔ )
( انتساب ۔ تفسیر سورۃ الفاتحہ ، از مولانا ابُوالکلام آزادؒ ۔ )
0 Comments