قرآن حکیم میں اللہ آپ اپنی قدرت بیان کرتے ہوئے فرماتاہے کہ جو کام کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو میں ایک’’کن‘‘ کہتا ہوں اور وہ ہو جاتاہے۔اللہ پاک کے اس کُن میں کتنی طاقت ہے ۔ ہم مسلمانوں کو سائنس دانوں کا شکریہ ادا کر چاہئے کہ انہوں نے ہمارے سامنے قرآن کی سچائی بیان کی ،اللہ کو پہچاننے میں مدد کی۔
یقین جانئے کئی بار علما سے لفظ کن فیکون کی تشریح سنی مگر ہمیشہ تشنگی رہی اس لفظ کی طاقت ،وسعت اور کمال تک وہ پہنچنے سے ہمیشہ قاصر رہے ۔ کُن فیکون کا مفہوم ہم اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک ہم اللہ کی قدرت کو نہیں جان جاتے۔ سائنس ہے جو ہمیں اس کُن کی طاقت سے آگاہ کرتی ہے۔اللہ پاک کے کُن میں کتنی طاقت ہے اس سے ہمیں ضرور آگاہی حاصل کرنی چاہئے ۔
انسان کو اپنے مالک کی قدرت کو جاننا ضروری ہے۔ اللہ کی اس وسیع کائنات میں انسان کی کیا حثیت ہے یہ اسے تب ہی پتہ چل سکتا ہے جب وہ اس کائنات کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرے پھر اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کی تخلیق ااور پھر اسے دنیا میں بھیج کر موت دینا اور موت کے بعد دوبارہ اٹھانا اللہ پاک کی قدرت کے آگے ایک کُن کا فاسلہ ہے۔ آئیے آپ کواپنی اس کائنات سے روشناس کراتے ہیں۔
ہم جس زمین پر رہتے ہیں وہ ایک عام آدمی کے حجم سے 30ارب گنا بڑی ہے۔ہماری اس زمین سے ہمارا سورج دس لاکھ گنا بڑا ہے۔ سورج سے بھی بڑے بڑے سیارے کائنات میں موجود ہیں۔ ہم جس کہکشاں میں رہتے ہیں اس کا نام ملکی وے ہے ۔ ہماری اس کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے تین سو ارب سے زائد سورج موجود ہیں۔ یہ کہکشاں اتنی بڑی ہے کہ اگر ہم کسی ایسی چیز پر سوار ہوں جو تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہو یعنی ایک سیکنڈ میں ہماری اس زمین کے سات چکر لگا سکتی ہو تو اس کو بھی ہماری کہکشاں کو پار کرتے کرتے ایک لاکھ سال لگ جائیں گے۔
اس سے اندازہ لگا لیں کہ ہم جس کہکشاں میں رہتے ہیں وہ کتنی بڑی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کائنات میں صرف ایک ہماری کہکشاں ہی نہیں ہماری کہکشاں کے پڑوس میں ایک دوسری کہکشاں بھی موجود ہے جس کو سائنسدانوں نے انڈرومیڈا گلیکسی کا نام دیا ہے یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے دگنی ہے یعنی دولاکھ نوری سال وسیع و عریض ہے مگر یہ بھی چھوٹی ہے
کہکشاؤں سے اندازہ ہوا کہ یہ کائنات کتنی بڑی ہے مگر یوں سمجھئے کہ کہکشاؤں سے بھی آگے بہت کچھ ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔ جیسے بڑے سیاروں سے مل کر کہکشاں بنتی ہے اسی طرح ان کہکشاؤں سے مل کر کلسٹر بنتے ہیں اور جس کلسٹر میں ہماری کہکشاں موجود ہے اسے ورگو کلسٹر کا نام دیا گیا ہے اور ایک کلسٹر میں سینتالیس ہزار(47000) کہکشائیں ہیں۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ کائنات میں صرف ایک کلسٹر نہیں ہے ۔
کئی کلسٹر ہیں۔ایک سو کلسٹر آپس میں مل کر سپر کلسٹر بناتے ہیں۔جس سپر کلسٹر میں ہم رہتے ہیں اس کا نام لوکل سپر کلسٹر ہے۔ اس سپر کلسٹر جیسے کم و بیش ایک کروڑ سپر کلسٹر کائنات میں موجود ہیں جو ایک عظیم جال میں بنے ہیں اور معمولی نکتوں کی مانند نظر آتے ہیں۔اب ذرا سوچئے اس کائنات میں انسان کیا چیز ہے؟
انسان بھی عجیب ہے اپنی کامیابیوں کو اس طرح بڑھا چڑھا کے پیش کرتا ہے جیسے اس نے کوئی عظیم کارنامہ کر لیا ہواور اس نے ساری کائنات تسخیر کر لی ہو۔چاند پر اترنے اور مریخ پر بغیر پائلٹ کے شٹل بھیجنے کو تو عظیم کامیابی ٹھہرایا جاتا ہے۔لیکن انسان کی اس کامیابی پر ہنسی آتی ہے اور حضرت اقبالؒ کے شعر کا وہ مصرع یاد آتا ہے۔ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔‘‘ اس کائنات کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھ کر ذرا سوچئے انسان اس کائنات میں کیا حیثیت رکھتاہے اور ہم جس زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں اور چاند و مریخ کو تسخیر کرنے کے جو کارنامے دہراتے رہتے ہیں ان کی اس کائنات میں کیا حیثیت ہے۔
اس سے بھی اہم بات کہ ہم جب لفظ کائنات استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چائیے کہ یہ کائنات کیا ہے اور پھر جب ہمیں یہ معلوم ہو جائے تو پھر اس کو بنانے والے کی شان اور قدرت کا ادراک کر سکتے ہیں کہ اس عظیم رب نے ایک کُن سے یہ بنا دئیے۔انسان اپنے مالک کی قدرت کا جان گیا تو پھر اس کے سامنے ساری حقیقت کھل جائے گی اور انسان کے لئے اس حقیقت کا جاننا بے حد ضروری ہے۔
سائنسدانوں کی یہ تحقیق ابھی ادھوری ہے شائد وہ قیامت تک لگے رہیں اور انہیں اس کائنات میں نئے سیارے ملتے رہیں،نئی کہکشائیں دریافت ہوتی رہیں اور کئی کلسٹر اور سپر کلسٹر وجود میں آتے رہیں لیکن وہ پھر بھی کائنات کی اصل وسعت تک نہیں پہنچ پائیں گے۔میر ے رب کی ذات عظیم ہے اس کی قدرت ہمارے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہے جسے شائد ہم ماپنے سے قاصر ہیں۔
زیڈ بی پسروری
0 Comments