جب دنیا غموں اور دکھوں سے بھر گئی تو ﷲ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اُس نے دنیا کے لئے ہمارے پیارے نبی محمد مصطفی صلی ﷲ علیہ وآل وسلم کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا۔ آپؐ نے اپنے اخلاق اور کردار سے دنیا کے لئے ایسی مثالیں قائم کردیں جن پر عمل کرکے ہم بھی اپنی دنیا کو جنت بناسکتے ہیں۔
دنیا کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآل وسلم پر جب پہلی بار وحی اتری تو آپؐ بے حد گھبرائے اور سخت پریشانی کی حالت میں گھر تشریف لائے۔ آپؐ نے آتے ہی حضرت خدیجہ سے فرمایا ’’مجھے کمبل اوڑھا دو‘‘۔
اس پر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے کردار پر جو گھر کی گواہی پیش کی وہ گواہی یہ تھی
’’آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، قرض داروں کے قرض کا بار اٹھاتے ہیں، غریبوں کی اعانت کرتے ہیں، حق کی حمایت کرتے ہیں، یتیموں پر شفقت کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں، ﷲ تعالیٰ آپ کوکبھی ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
آپؐ کی نرم مزاجی شفقت اور خدا کے بندوں کے ساتھ نرمی کا مظہر یہ بھی تھا کہ آپؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خندق کھودتے، ٹوکری اٹھاتے، اینٹیں ڈھوتے، لکڑیاں جمع کرتے اور کپڑے رفو کرتے۔ خود دودھ دوہتے، بازار سے سودا سلف لے آتے اور پڑوسیوں کے کام اکثر کردیا کرتے تھے۔ خود قرآن نے آپؐ کے بارے میں گواہی دی ہے
’’اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تم اخلاق کے بڑے درجے پر ہو‘‘۔ سورہ القلم ۔آیت ۴
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں
آپؐ کی عادت کسی کو بُرا بھلا کہنے کی نہ تھی، آپؐ بُرائی کے بدلہ میں بُرائی نہیں کرتے تھے، بلکہ درگزر کرتے تھے اور معاف فرما دیتے تھے، آپؐ کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہ لیتے، آپؐ نے کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہیں کی، آپؐ نے کبھی کسی خادم کو نہیں مارا، آپؐ نے کسی کی کوئی درخواست رد نہیں فرمائی‘‘۔
آپؐ کا معمول تھا کہ آپ کسی سے ملتے تو پہلے خود سلام فرماتے اور مصافحہ میں جس سے ہاتھ ملاتے کبھی پہلے خود ہاتھ نہ کھینچتے، آپؐ فرماتے
تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہے‘‘۔ مشکوۃ ،ص:۲۸۱
حضرت انسؓ آپؐ کے خادم خاص روایت کرتے ہیں، میں 10 سال تک حضورؐ کی خدمت میں رہا لیکن حضورؐ نے میری کسی بات پر کبھی اف تک نہیں کہا۔ متفق علیہ
آپؐ نے فرمایا
خدا کے نزدیک سب سے برا وہ شخص ہے جس کی بد زبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں‘‘۔ بخاری ومسلم
آپؐ بچوں کو دیکھ کر خوش ہوجاتے اور بچے بھی آپؐ سے بہت جلد مانوس ہوجاتے۔ جب آپؐ کھیلتے ہوئے بچوں میں سے گزرتے تو انہیں سلام کہتے، جب سواری پر گزرتے تو پیار سے بچوں کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیتے۔ ایک اعرابی نے آپؐ کو بچوں کو پیار کرتے دیکھا تو سخت حیران ہوا اور کہنے لگا، میرے تو دس بچے ہیں اور میں نے تو ان سے کبھی اس طرح پیار نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا
’’جب خدا نے تیرے دل سے شفقت و رحمت چھین لی ہے تو میں تھوڑا ہی اس کا ذمہ دار ہوں‘‘۔ صحیح بخاری ،جلد۸
آپؐ کی رحمت و شفقت صرف انسانوں تک محدود نہ تھی بلکہ جانوروں پر بھی شفقت فرمائی۔ آپؐ باغ سے گزر رہے تھے کہ ایک اونٹ زور زور سے بلبلایا، آپؐ نے اس کی پیٹھ پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اس کے مالک کو بلا کر فرمایا
’’اس جانور کے بارے میں خدا سے ڈرو‘‘۔‘ ابوداؤد
ایک بار ایک صحابی ابومسعود انصاریؓ اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے کہ آپؐ تشریف لے آئے، آپؐ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا
’’ابومسعودؓ اس غلام پر تمہیں جس قدر اختیار ہے، ﷲ عزوجل کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے‘‘۔
ابومسعودؓ یہ بات سن کر خوف زدہ ہوگئے اور غلام کو آزاد کردیا۔ آپؐ نے فرمایا، ہر حساس جاندار جس کو بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے اس کو کھلانے پلانے میں ثواب ہے‘‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا کہ ’’جو شخص نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا وہ سارے خیر سے محروم کیا گیا۔‘‘ مسلم
آپؐ فرماتے ’’قیامت کے دن ان لوگوں کو پکار کر ان کا اجر دیا جائے گا جو دنیا میں لوگوں کی خطائیں معاف کردیا کرتے تھے‘‘۔ ابوداؤد، ترمذی
رحمت اللعالمین ؐ کی رحمت کی انتہا یہ ہے کہ آپؐ نے عبدﷲ بن ابی رئیس المنافقین کی موت پر بھی، جس نے عمر بھر آپؐ کی مخالفت اور ایذا رسانی میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ اپنا کرتا اس کے کفن کے لیے مرحمت فرمایا اور اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا، اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ 70 مرتبہ سے زیادہ اس کی مغفرت کی دعا کروں تو میں اس سے بھی زیادہ اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتا‘‘۔ صحیح بخاری ۔جلد۲
فتح مکہ کا واقعہ دنیا کے عجیب اور حیرت انگیز واقعات میں سے ایک ہے۔ جن دشمنان اسلام نے 21 سال تک حضورؐ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ مظالم کی کوئی انتہا نہ رکھی تھی۔ بھوک پیاس قید و بند، قتل و غارت، مار پیٹ اور تباہی و بربادی، گھروں سے ہجرت اور پھر میدان جنگ میں 9 سال تک شدید کشمکش اور خاک و خون میں تڑپنے کی دشمنیاں کی تھیں۔ اب وہ مفتوح ہوگئے اور مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تو آپؐ نے جو بات اس وقت فرمائی وہ صرف آپؐ جیسی سراپہ رحمت ہستی ہی کہہ سکتی تھی۔ آپؐ نے فرمایا
’’آج کا دن لطف و کرم اور رحمت کا دن ہے‘‘۔ بخاری جلد۲
ابوسفیان کو بھی معاف کردیا جس نے کفر و اسلام کی لڑائی میں کفر کی ساری جنگ اپنے ہاتھوں سے لڑی تھیں۔ عکرمہ بن ابوجہل کو بھی معاف کردیا جس نے اسلام اور مسلمانوں پر کونسا ظلم ہے جو نہ ڈھایا ہو۔ ہبار بھی معاف کردیا گیا جس نے نیزہ مار کر رسول اکرمؐ کی پیاری بیٹی زینبؓ کو اونٹ سے گرا دیا تھا جس کے صدمے ہی سے بعد میں ان کا انتقال ہوا۔ ہندہ جگر خوار حمزہ، زوجہ ابوسفیان بھی معاف کی گئی جس نے میدان جنگ میں حضورؐ کے پیارے چچا جناب امیر حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبایا۔ وحشی بھی معافی لے گیا جس نے حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کرکے گویا اس فوج کا مضبوط ستون گرادیا تھا اور اپنے بے درد نیزے سے لشکر اسلام کا شیر شہید کر دیا تھا۔ دنیا اس قسم کی فتح اور دشمن کے ساتھ اس قسم کے لطف و کرم سے پہلے بھی نا آشنا تھی اور ان کے بعد اب تک نا آشنا ہے۔
آپؐ فرمایا کرتے
’’تم ایک دوسرے کی باتیں مجھے نہ سنایا کرو، میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے جاؤں تو سب کی طرف سے میرا سینہ صاف ہو‘‘۔
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
میرشاہد حسین
0 Comments