’’اے ایمان والو! انصاف کو قائم کرنے والے بن جائو اور خدا کے واسطے کے گواہ بنو۔ خواہ یہ گواہی اپنی ذات کیخلاف ہو یا اپنے والدین یا اقربا کیخلاف ہو۔ وہ امیر ہوں یا غریب، اللہ ان کا بہتر نگہبان ہے تم اپنی خواہشات کی پیروی میں عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم بات کو گول کرجائو گے یا سچائی سے پہلو بچائو گے تو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے‘‘۔ 135:4 ’’اے ایمان والو! اللہ کیلئے انصاف کی گواہی دینے کیلئے کھڑے ہوجایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم عدل چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو کہ یہی تقویٰ کے قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے‘‘۔ [8:5 ’’کسی کی شخصی مخالفت کے باعث نا انصافی کے مجرم نہ بن جائو بلکہ عدل کرو اور یہی متقی کی شان ہے‘‘۔ 8:5 ’’ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اُتاری تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر‘‘۔ 25:57
حضور اکرمﷺ نے ریاست مدینہ میں عدل و انصاف کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ ہمارے جج انصاف کے چند واقعات سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ’’خیبر کی فتح کے بعد مفتوحہ زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ یہود نے اللہ کے رسولﷺ سے درخواست کی کہ وہ چونکہ زمین پر بہتر کاشت کرسکتے ہیں لہٰذا زمینیں انکے پاس ہی رہنے دی جائیں اور وہ پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کرینگے۔ آپﷺ نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ بٹائی کا وقت آتا تو آپﷺ حضرت رواحہؓ کو بھیجتے جو فصل کے دو حصے کرتے اور یہود سے کہتے کہ اس میں سے جو حصہ چاہے لے لو۔ یہود اس عدل پر متحیر ہوکر کہتے کہ زمین اور آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں‘‘۔ بلاذری ’’یہودیوں نے آپﷺ سے شکایت کی کہ مسلمان مساقات (حصہ وصول کرنے) کے بعد بھی انکی فصلوں اور سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے حکم دیا کہ معاہد قوم کا مال مسلمان کیلئے حلال نہیں ہے۔ اسکے بعد مسلمان سبزی وغیرہ قیمتاََ خریدنے لگے‘‘۔ الواقدی]
’’ایک دفعہ خاندان قریش کی عورت نے چوری کی۔ قریش کی عزت کے لحاظ سے لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے اور معاملہ دب جائے۔ حضرت اُسامہ بن زیدؓ رسول اکرمﷺ کے قریب تھے۔ لوگوں نے ان سے سفارش کیلئے کہا۔ انہوں نے آپﷺ سے معافی کی درخواست کی۔ آپﷺ نے سختی سے فرمایا کہ بنی اسرائیل اس لیے تباہ ہوئے کہ وہ غرباء پر حد جاری کرتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے۔ بخاری
آپﷺ نے فرمایا بخدا اگر فاطمہؓ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتیں تو میں ان پر بھی حد جاری کردیتا۔ آپﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا‘‘۔ مسلم
’’حضور اکرمﷺ ہمیشہ خود بھی جواب دہی کیلئے آمادہ رہتے اگر آپﷺ کے کسی سلوک سے نادانستہ طور پر کسی شخص کو ایذا پہنچتی تو آپﷺ اسے بدلہ لینے کی فراخ دلانہ پیش کش کرتے۔ ایک مرتبہ مال غنیمت کی تقسیم کے دوران ایک شخص کے چہرے پر جو اپنا حصہ لینے کیلئے آپﷺ کی جانب جھکا ہوا تھا آپﷺ کے نیزے کا زخم لگ گیا۔ آپﷺ نے فوراََ اسے بدلہ لینے کی پیش کش کی مگر اس نے معاف کردیا۔‘‘ ابودائود
فتح مکہ کے بعد رحمتہ اللعالمین اور محسن انسانیتﷺ نے اسلام کے دشمنوں کو معاف کردیا تھا۔ انسانی تاریخ میں برداشت اور عفو کی اس سے بڑی مثال نہیں ملتی۔ حضور اکرمﷺ خانہ کعبہ میں مناصب عطا فرمارہے تھے آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اور داماد حضرت علیؓ نے حضور اکرمﷺ سے درخواست کی کہ خانہ کعبہ کی کلید ان کے سپرد کردیں۔ آپﷺ عام معافی کا اعلان فرماچکے تھے اس لیے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قبائلی، مذہبی اور خاندانی تعصب کو مسترد کرکے آپﷺ نے خانہ کعبہ کی کلید صفوان بن عثمان کے پاس ہی رہنے دی جس نے ابھی اسلام بھی قبول نہیں کیا تھا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ مدعی کے ساتھ قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے قاضی نے امیر المومنین کو بیٹھنے کیلئے بہتر جگہ دی تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ امتیازی سلوک اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ہم اپنے محترم جج صاحبان سے مودبانہ گذارش کرتے ہیں کہ وہ تقریریں کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے حکومت کی رہنمائی بھی کریں اور اس پر عدالتی دبائو بھی ڈالیں کیونکہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی آئینی تقاضہ ہے۔
قیوم نظامی
حضور اکرمﷺ نے ریاست مدینہ میں عدل و انصاف کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ ہمارے جج انصاف کے چند واقعات سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ’’خیبر کی فتح کے بعد مفتوحہ زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ یہود نے اللہ کے رسولﷺ سے درخواست کی کہ وہ چونکہ زمین پر بہتر کاشت کرسکتے ہیں لہٰذا زمینیں انکے پاس ہی رہنے دی جائیں اور وہ پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کرینگے۔ آپﷺ نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ بٹائی کا وقت آتا تو آپﷺ حضرت رواحہؓ کو بھیجتے جو فصل کے دو حصے کرتے اور یہود سے کہتے کہ اس میں سے جو حصہ چاہے لے لو۔ یہود اس عدل پر متحیر ہوکر کہتے کہ زمین اور آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں‘‘۔ بلاذری ’’یہودیوں نے آپﷺ سے شکایت کی کہ مسلمان مساقات (حصہ وصول کرنے) کے بعد بھی انکی فصلوں اور سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے حکم دیا کہ معاہد قوم کا مال مسلمان کیلئے حلال نہیں ہے۔ اسکے بعد مسلمان سبزی وغیرہ قیمتاََ خریدنے لگے‘‘۔ الواقدی]
قیوم نظامی
0 Comments