حضرت سیدنا حسین ابن علیؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سوال کیا کہ جناب رسالت مآبﷺ کا اپنے ہم نشینوں اور مصاحبوں سے کیا طرز عمل تھا؟ ارشاد فرمایا: حضورﷺ کے چہرہ انور پر ہمیشہ بشاشت رہتی تھی، آپ بہت نرم مزاج تھے، آپ سے بات کرنا بہت ہی آسان تھا، آپ بد مزاج اورسخت دل نہیں تھے، اور نہ ہی بدگفتاری آپ کا شیوہ تھا، آپ نہ تو لوگوں کے عیب بیان کرتے تھے، نہ بخل کرتے تھے، اور نہ ہی آپ فضول باتوں کیطرف متوجہ ھوا کرتے تھے، اگر کوئی شخص آپکے پاس امید لے کر آتا تو آپ اسکو مایوس نہیں کرتے تھے اورکسی کو بھی نامراد نہیں لوٹاتے تھے،
آپ نے اپنے لئے تین چیزوں کو چھوڑ دیا تھا، آپ کسی بھی شخص کی مذمت کرتے نہ ہی اس کا عیب نکالتے تھے اورنہ کسی کی پوشیدہ چیز معلوم کرتے تھے، اور آپ صرف اسی معاملے پر بات کیا کرتے تھے، جس میں آپکو ثواب کی امید ہوتی تھی اورجب آپ محوِ گفتگو ہوتے تو، آپکے ہم مجلس، اسطرح اپنے سروں کو جھکا لیتے، جیسے انکے سروں پر پرندے بیٹھ گئے ہوں (جو ذرا سی جنبش سے اڑجائیں گے) اور جب آپ خاموش ہوتے تو تب وہ (اہل مجلس) آپ سے کوئی بات (کرنے کی ہمت)کرتے، اور وہ آپکے روبرو کسی بھی معاملے میں بحث و تکرار نہیں کیا کرتے تھے
اورجب کوئی ایک شخص بات کرتا تو دوسرے تمام اہل مجلس خاموش رہتے (اور اس کی بات ختم ہونے کا انتظار کرتے) جب آپ کے شرکائے مجلس کسی بات پر ہنستے تو آپ بھی (ان کی موافقت اور دلجوئی کیلئے) تبسم فرماتے اورجس چیز پر وہ تعجب کرتے، آپ بھی اس بات پر تعجب فرماتے، جب کوئی اجنبی شخص (جو کہ آداب مجلس سے یا آپکے مقام و مرتبے سے پوری طرح واقف نہ ہوتا) سختی سے بات کرتا یا سوال کرتا تو آپ صبر و تحمل سے کام لیتے، حتیٰ کہ آپکے اصحاب اس پر سختی کرتے، تو آپ فرماتے، جب تم دیکھو کہ ضرورت مند اپنی حاجت طلب کررہا ہے، تو تم بھی اس کےساتھ نرمی سے پیش آﺅ
آپ بغیر نوازش اور عطاءکے اپنی تعریف کو قبول نہیں فرماتے تھے، ہاں! آپ کسی کو کچھ عطا فرماتے اور وہ (سپاس گزاری اوراحسان شناسی کیلئے)آپکی تعریف کرتا تو آپ قبول فرمالیتے، آپ کسی کے کلام کو منقطع نہیں کرتے تھے، ہاں اگر کوئی شخص حق سے تجاوز کرتا تو پھر آپ اسکی بات کاٹ دیتے، اسے روک دیتے یا مجلس سے اٹھ جاتے۔ (شمائل ترمذی) حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جناب رسالت مآبﷺ نہ طبعاً فحش گفتار تھے، نہ تکلفاً اورنہ ہی بازار میں بلند آواز سے باتیں کیا کرتے تھے
آپ برائی کا جواب درشتی سے دینے کی بجائے اسے معاف کردیتے تھے اور (برائی سے) درگزر فرماتے تھے۔ (سنن ترمذی، احمد، مصنف ابن ابی شیبہ) حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اورکہنے لگی مجھے آپ سے کام ہے آپ نے فرمایا تم مدینہ کے جس راستے میں چاہو بیٹھ جاﺅ میں تمہارے پاس بیٹھ جاﺅں گا۔ مسلم، ابوداﺅد، مسند ابویعلیٰ
0 Comments