درسِ قناعت

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

درسِ قناعت

امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تھوڑے رزق (اور آمدن )پر راضی رہے حق تعالیٰ بھی اسکی جانب سے تھوڑے عمل پر راضی ہو جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح )اس حدیث پاک میں انسان کو قناعت کی تعلیم دی جارہی ہے ، قناعت سے مقصود بے عملی یا جدوجہد کا ترک ہر گزنہیں بلکہ ناجائز ذرائع کا اختیار اور غیر ضروری عجلت اورجلد بازی کو ترک کرنا ہے۔

 امام محمد غزالی فرماتے ہیں کہ اگر انسان پانچ باتوں کا التزام کرے تو اس میں یہ وصف جمیل پیدا ہوسکتا ہے۔ (۱)اپنے اخراجات میں کمی کرے اور ضرورت کی مقدار سے زیادہ خرچ نہ کرے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : جو شخص اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے وہ مفلس وتنگ دست نہیں ہوتا۔ (۲)اگر بقدرضرورت میسر ہوتو آئندہ کی فکر میں ہلکان نہ ہوتا رہے ، شیطان انسان کو ہمیشہ آئندہ کے اندیشوں میں مبتلاء رکھتا ہے اور انسان جائز اورناجائز کا خیال کیے بغیر اپنے سرمایے (اور اکائونٹ) کے اضافے میں مگن رہتا ہے جب انسان اسکے وسوسے کا شکار ہوجاتا ہے تو وہی شیطان انسان کا مذاق اڑاتا ہے کہ دیکھویہ بے وقوف آئندہ کی کسی تکلیف کے ڈر سے جو موہوم ہے، اس وقت کی یقینی مشقت اورتکلیف اٹھارہا ہے 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنے (اعصاب کے)اوپر زیادہ غم سوار نہ کرو، جو مقدر ہے وہ ہوکر رہے گا، اورجتنی روزی تمہاری ہے وہ آکر ہی رہے گی ، قرآن پاک میں اس حقیقت کو آشکار کیاگیا ہے کہ جورزق کے پاک ذرائع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اس بندئہ مومن کو وہاں سے رزق عطاء فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ،(۳) انسان اس امر پر غور وفکر کرے کہ قناعت کا وصف حاصل ہونے کی وجہ سے لوگوں سے استغناء کی کتنی بڑی عزت حاصل ہے اور حرص وطمع کی وجہ سے سوسائٹی کے سامنے کتنا ذلیل ہونا پڑتا ہے ۔ اس بات پر بڑے اہتمام سے غور کرنا چاہے اسکو ایک تکلیف برداشت کرنی ہے ، یا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت یا اپنے نفس کو ناجائز چیز سے روکنا ، یہ جو دوسری تکلیف ہے، اس پر تو اللہ رب العزت کے ہاں ثواب اوراجر کا وعدہ بھی ہے جبکہ پہلی آخرت کا وبال ہے۔ 

اسکے علاوہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا شخص حق بات کہنے سے رک جاتا ہے ، معروف مقولہ ہے کہ جس سے تو استغناء کرے اسکا ہمسر ہے، جسکی طرف احتیاج کرے، اس کا قیدی ہے اورجس پر احسان کرے اسکا حاکم ہے ، (۴) دنیا داروں اورمال داروں کے انجام پر غور کرے کہ ہامان وقارون کا کیا انجام ہوا، جبکہ انبیاء واولیاء کو اللہ کی جناب میں کیا توقیر عطاء ہوئی انسان نفس سے سوال کرے کہ اسے کون سا انجام پسند ہے ، (۵)مال کی کثرت اوراسکی محبت میں مبتلاء ہونے پر جو نقصانا ت ہیں انسان کو ان پر بھی غور وفکر کرنا چاہیے 

احیاء العلوم : امام غزالی



Post a Comment

0 Comments