حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں ہر (اس )دن جس میں اللہ رب العزت کے بندے صبح کے عالم سے ہم کنار ہوتے ہیں (آسمان سے) دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان میں ایک (اس طرح) دعاء کرتا ہے ، اے اللہ جو شخص تیرے راستے میں خرچ کرنیوالا ہے اسے اس کا بہترین بدل عطاء فرما اوردوسرا فرشتہ (اللہ کی بارگاہ میں اس طرح)عرض کرتا ہے ، اے رب ذوالجلال مال روک کررکھنے والے اوراسے فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنیوالے کے مال کو تلف فرمادے - بخاری ، مسلم، مشکوٰۃ ، الترغیب والترہیب
وہ شخص کس قدر خوش قسمت جس کیلئے کوئی خلوص ونیت سے دعاء مانگنے والا ہو، مومن کیلئے کوئی دوسرا مومن غائبانہ دعاء کرے تواس کیلئے بھی بڑی بشارت کا سامان ہے ، دعاء عبادت کا مغزہے اوردعاء سے تقدیر میں بہتری آجاتی ہے ۔ ملائکہ اللہ رب العزت کی نوری مخلوق ہیں، خطائوں اورگناہوں سے پاک ہیں ، اللہ کے ذکروتسبیح میں مشغول رہتے ہیں اوراس احکام کی بجاآوری کیلیے ہر وقت مستعدرہتے ہیں ، اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے بلکہ اللہ ہی کے حکم سے حرکت کرتے ہیں اور اللہ ہی کے حکم سے لب کشاہ ہوتے ہیں، اگر یہ کسی خوش نصیب کیلئے دعاء کرتے ہیں تو یہ دعاء بھی اللہ رب العزت کے حکم سے ہی ہے۔
اللہ رب العزت کے راستے میں خرچ کرنیوالا انسان وہ خوش بخت ہے جس کیلئے معصوم اورنوری فرشتے اللہ کریم کے حکم سے دعائیہ کلمات اداکرتے ہیں۔اس حدیث مبارکہ میں اللھم اعط منفقاً خلفاکے الفاظ ہیں یعنی اے رب کریم اپنے رستے میں خرچ کرنیوالے کو اس کا نعم البدل عطاء فرما۔ ایک چیز کے بعد آنے والی دوسری چیز کو خلف کہتے ہیں۔ اگر خلف لام کے سکون سے ہو تو ایسی چیز مراد ہوتی ہے جو خیر وبرکت سے خالی ہو، لیکن اگر لام کے فتح (زبر)کے ساتھ ہوتو اس سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جو خیر وبرکت سے معمور ہو اوراپنے دامن میں سعادت اورعنایت لیکر آئے ۔
فرشتے خیرات فی سبیل اللہ کرنیوالے کیلئے ایسے بدل کی دعاء کرتے ہیں جو رحمتوں ، برکتوں اور وسعتوں سے پر ہو، یعنی اسے اس انفاق کے نتیجے میں مزید کامیابی،کشادگی ، علم وہنر، عزت ووقار ،اورشہرت وکامرانی نصیب ہو، خلف کا تعلق نیک اولا سے بھی ہوسکتا ہے ، نیک اولاد انسان کیلئے دعاء گو رہتی ہے اورصدقہ جاریہ ثابت ہوتی ہے ، خلف کسی ایسے کام کی توفیق بھی ہوسکتی ہے جس کا ثواب انسان کو اسکے مرنے کے بعد بھی ہوتا رہے ۔ اس طرح جو فرشتہ تلف کی دعاء کرتا ہے ،اس سے مراد مال کا تلف ہوسکتا بھی ہے،جسکے نتیجے میں انسان فقروفاقہ کی اذیت میں مبتلاء ہوسکتا ہے اورسوال کی ذلت سے گزر سکتا ہے، اس سے برکت کا اٹھ جانا بھی مراد ہوسکتا ہے جسکے نتیجے مال ہونے کے باوجود انسان کواس سے ثواب کی توفیق نہ ملے، جان کا بے جا زیاں بھی تلف ہے اوراولاد واہل وعیال کا بگڑ جانابھی تلف کی ہی ایک صورت ہے۔
0 Comments