بدر کا مقام مدینہ سے مکہ جانیوالے پرانے راستے پر تقریباً نصف مسافت پر ہے۔ مدینہ سے کچھ ہی دور سفر کریں تو طویل پہاڑی سلسلہ شروع ہو تا ہے۔ اس پہاڑی راستے میں بھی ایک جدید دو رویہ شاہراہ بنائی گئی ہے جبکہ صدیوں پرانے قافلوں کے راستے پر بھی پختہ سنگل روڈ بنا دی گئی ہے۔ یہ دونوں سٹرکیں ساتھ ساتھ ہیں۔ بد ر کے راستے کے پہاڑ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے کسی حد تک مشابہت رکھتے ہیں۔ ان بنجر اور چٹیل پہاڑوں کے درمیان کہیں کہیں سر سبز وادیاں اور نخلستان ہیں۔ ان بستیوں میں جنگلی کیکر کے درخت اور اونٹ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
بدر آج کے سعودی عرب کا ایک جدید چھوٹا شہر ہے جو زندگی کی ہر سہولت سے آراستہ ہے۔ یہاں غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں جن کا تعلق ڈیرہ غاری خان ڈویژن سے ہے۔ مدینہ سے تقریباً 80 کلو میٹر سفر کے بعد پرانی سٹرک کے دائیں جانب بئیرالروحاء یعنی روحاء کا کنواں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لشکر نبوی نے پڑائو ڈالا تھا۔ اس کنویں کے حوالے سے تاریخی کتابوں میں کئی روایات ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ لشکر نبویﷺ میں شامل ایک صحابی کو گردے میں شدید درد ہوا۔ آپﷺ نے بئیر روحا کے کنویں کا پانی پلایا تو اسے آرام آ گیا۔ مقامی لوگ اس پانی کوآب شفاء کہتے ہیں۔ اس کنویں سے پانی نکالنے کیلئے رسی کے ساتھ روایتی بوگی اور ڈبہ باندھ کر پانی نکالا جاتا ہے۔کنویں کی دیکھ بھال ایک پاکستانی ملازم کرتا ہے جس کا نام محمد امجد ہے۔ اس نے بتایا کہ کنویں میں سطح زمین سے 127 فٹ نیچے پانی موجود ہے اور یہ پانی نا قابل علاج امراض کیلئے شفاء کا باعث ہے۔
کنویں کے پاس ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے روایت ہے کہ یہاںحضورﷺ کا خیمہ نصب تھا۔ کنواں روحاء اس پہاڑی وادی کے بالکل درمیان میں ہے۔ اس کے پاس کھڑے ہو کر اگر آپ چاروں طرف نظر دوڑائیں تو طویل القامت پہاڑوں نے وادی کوگھیرا ہوا ہے۔ اور یہ جگہ ایک گول پیالے کی طرح ہے۔ کنویں کے چاروں طرف یہ وادی تقریباً دو دو کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ وادی میں کہیں کہیں کیکر کے خشک درخت اور کھجور کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔ بئیر روحا وادی کا منظر دیدنی ہے۔بئیر روحاء سے بدر کی جانب سفر شروع کریں تو چند ہی کلو میٹر بعد پہاڑی وادیوں میں سرسبز و شاداب اور پرکشش چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں جہاں تمام روزمرہ اشیاء باآسانی دستیاب ہیں۔
بدر شاہراہ کے دونوں اطراف راستے میں کئی جگہوں پر اب بھی صدیوں پرانے پتھروں کے بنے بے آباد گھروں کی شکستہ دیواریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سیلابی گزرگاہوں کیساتھ ان پہاڑیوں پر قدیم درجنوں گھر اب بھی تاریخ اسلام کی پہلی جنگ’’غزوہ بدر‘‘ میں حصہ لینے والے قافلے کی گزرگاہ کے شاہد ہیں۔ ان گھروں کو اگر اب بھی محفوظ کر لیا جائے تو یہ عظیم تاریخی ورثہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تحقیق کا بہت سا مواد فراہم کر سکتی ہے۔ کچھ اور آگے چلیں تو الخیف کا قصبہ آتا ہے۔ پھر الوسطہ اور الفارا کا پڑائو اور پھر الجدید کا قصبہ ہے۔ اس سے کچھ آگے بدر کی منفرد وادی نظر آتی ہے۔ اس وادی میں داخل ہوتے ہی آپکی پہلی نظر اسی سفیدی ملے ریتلے پہاڑ پر پڑتی کہ جس کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ اسی ریتلے پہاڑ کے درے سے حضورﷺ کی دعا کے بعد ا للہ کی مدد (فرشتوں کی صورت میں) قافلہ اسلام میں شامل ہوئی اور کفار کو شکست فاش ہوئی۔ آپ کی دوسری نظر مسجد العریش کے میناروں پر پڑتی ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی پاکﷺکا خیمہ تھا۔ مقام بدر دو پہاڑیوں کے درمیان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام یوم الفرقان رکھا۔ قرآن پاک کی سورۃ انفال میں تفصیل کیساتھ جبکہ دوسری سورتوں میں اجمالاً بار بار اس معرکہ کا ذکر فرمایا اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ "اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سرو سامان تھے۔ تو تم لوگ اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جائو" غزوہ بدر رمضان المبارک کی سترھویں تاریخ جمعہ کے روز ہوا۔ مسلمان دستہ تین سو تیرہ افراد، ستر اونٹ، دو گھوڑوں، چھ زریں بکتر اور آٹھ شمشیروں پر مشتمل تھا جبکہ دوسری طرف ہزاروں کفار، سات سو اونٹ، دو سو گھوڑے، سینکڑوں ڈھالیں، تلواریں اور آلات حرب سے لیس تھے۔ مسلمانوں کی جماعت بظاہر کمزور دکھائی دیتی تھی، مگر دل مطمئن تھے کہ رحمت عالمﷺ ساتھ ہیں۔ حق غالب آئیگا اور وہی ہوا کہ حق نے باطل کو وہ شکست دی جو آج بھی دنیا بھر کیلئے مثال ہے۔ غزوہ بدر میں چودہ صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ تیرہ صحابہ کرام ؓ تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن الحارث ؓ نے بدر سے مدینہ واپسی پر زخمی حالت میں وفات پائی اس لئے انکی قبر ’’صفرائ‘‘ میں ہے۔ زرقانی ج۱ ص544
بدر کے ان چودہ شہید صحابہ کرامؓ کے نام ایک بورڈ پر لکھے ہوئے ہیں۔ آبادی کے پھیلائو کی وجہ سے اب یہ جگہ بستی میں گھر گئی ہے۔ شہداء بدر کی قبریں جس جگہ ہیں وہاں اب کوئی نشان نہیں ہے۔ اب یہاں آدمی کے قدسے بلند چار دیواری بنا دی گئی ہے۔ اب گاڑی میں بیٹھ کر بھی آپ اس چار دیواری کے اندر کا منظر نہیں دیکھ سکتے۔ مسلمانوں کے لشکر نے بدر کے میدان میں جس جگہ پڑائو کیا تھا قرآن پاک نے اسے ’’العدوۃا لدنیا‘‘ کہا ہے۔ بدر کا معرکہ جس جگہ حضورﷺ کا خیمہ نصب تھا اسی جگہ مسجد العریش ہے۔ ہم نے یہاں نوافل ادا کئے۔ بدر کی مٹی چمکدار ریت کی مانند ہے۔ بدر کے علاقے میں اب بھی کہیں کہیں پرانے طرز کے مٹی اور گارے کے گھر ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے نبی کریمﷺ سے جب ایک بار پوچھا کہ آپکی زندگی کے سخت ترین دن کونسے تھے تو آپﷺ نے فرمایا۔ عائشہ ایک دن طائف کا دوسرا بدر کا۔
0 Comments