حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ رب العزت سات افراد کو اپنے (سایہءعرش) میں رکھے گا،جس روزاس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا ،عدل پرور حکمران وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت اورریاضت میں اپنی نوجوانی بسر کی ،وہ شخص جس نے اپنی تنہائی میں اپنے پروردگار کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، وہ شخص جس کا دل(ہمیشہ) مسجد (ہی) میں معلق رہا ،وہ دو اشخاص جنہوں نے (محض) اللہ تبارک و تعالی کو راضی کرنے کے لئے ایک دوسرے سے محبت کی،وہ شخص جسے کسی حسن و جمال اور مال وثروت والی عورت نے دعوتِ گناہ دی اور اس نے کہا کہ میں تو اللہ( علیم و خبیر)سے ڈرتا ہوں ،اور وہ شخص جس نے بڑی راز داری سے چھپاکر صدقہ کیا، حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کومعلوم نہ ہو سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے۔(بخاری ،ترمذی ، صحیح ابن حبان،احمد)۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے ایمان کا افضل درجہ یہ ہے کہ اسے اس امر کا یقین رہے کہ وہ جہاں بھی ہے اس کا اللہ (سمیع وبصیر ) اس کے ساتھ ہے۔ (بیہقی)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںحضور رحمتہ للعالمین علیہ الصلوٰة والسلام ایک قریب المرگ نوجوان کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے استفسار فرمایا،اس وقت تیری کیا حالت اور کیفیت ہے؟ اس نے عرض کی، میں اللہ غفور الرحیم کی رحمت کا امیدوار ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں، آنجناب نے یہ سن کرارشاد فرمایا:ایسے موقع پر کسی بندے کے دل میں یہ دو چیزیں جمع نہیں ہوتیں، الا یہ کہ اللہ کریم اسے اس کی امید کے مطابق ہی عطا فرماتا ہے اور اسے خوف و خطر سے امن میں رکھتا ہے۔ ترمذی ،ابن ماجہ، بیہقی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ہریرہ! تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرو گے تو تم لوگوں میں سب سے بڑے عالم ہو جاﺅ گے،قناعت اختیار کرلو تو سب سے بڑھ کرشاکر ہو جاﺅ گے، اگر دوسروں کے لے بھی وہ چیز پسند کرو گے جو تم اپنے لے کرتے ہو تو کامل الایمان گردانے جاﺅ گے، اپنی صحبت میں رہنے والے سے حسن سلوک کرو گے تو عمدہ مسلمان ہو گے اور ہنسی کو کم کروکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔(بیہقی) بیان کردہ روایات اسلامی ماحول اورمعاشرے میں حسن نیت اور اخلاص کی فضاءپیدا کرنے کی تلقین کرتی ہیں ۔بلکہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مومن جہاں بھی ہواس کے ہر کام کی غرض محض اورمحض اللہ کی رضاءکا حصول ہوناچاہیے ۔ دنیاکی شہرت ، نیک نامی ، صلہ و ستائش عارضی اورفانی چیزیں ہیں جن کی بازار ِ آخرت میں کوئی قدروقیمت نہیں ۔
0 Comments