مکہ کے تاریخی مقامات....

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

مکہ کے تاریخی مقامات....


(سعودی عرب) میں خشک پہاڑوں اور بے آب و گیاہ زمین پر آباد شہر مکہ کے بانی حضرت ابراہیم ؑ ہیں جنھوں نے یہاں بیت اللہ تعمیر کیا تھا۔
اس شہر مقدس کو تین جلیل القدر نبیوں سے نسبت کا شرف حاصل ہے، بقول سید سلیمان ندویؒ: ’’یہ شہر ایک بوڑھے پیغمبر (ابراہیم ؑ) کی بنا، ایک نوجوان پیغمبر (اسمٰعیل ؑ) کی ہجرت گاہ اور ایک یتیم پیغمبر (محمدﷺ) کا مولد ہے۔

خاتم النبیین حضرت محمدﷺ 9ربیع الاوّل 20/اپریل 571ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپﷺ کی جائے پیدائش کو مولد النبی کہا جاتا ہے جہاں اب (لائبریری) بنائی گئی ہے۔

مکہ معظمہ 21درجے25دقیقے عرض بلد شمالی اور 39درجے 49دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے اور سطح سمندر سے قریباً 300میٹر بلند ہے۔ یہ وادیٔ ابراہیم میں آباد ہے جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔
اس کے مغربی جانب جبل قُعیقعان ہے۔ جنوب مشرق میں جبل ثور اور جنوب میں جبل کُدَیّ واقع ہیں۔ مشرق میں مسجد الحرام کے قریب ترین420میٹر بلند جبل ابو قبیس اور اس کے پیچھے کوہ خندمہ ہیں۔

مکہ مکرمہ کے شمال مغرب میں جبل اَلحَجُون واقع ہے جس کی کداَء نامی گھاٹی کی طرف سے نبیﷺ فتح مکہ کے وقت شہر میں داخل ہوئے۔ شمال مشرق میں جبل حرا سطح سمندر سے 642میٹر بلند ہے جبکہ جبل ثور کی بلندی 728میٹر ہے جو مسجد الحرام سے 4.123کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

مکہ کی آبادی پہاڑوں کے درمیان ہلال کی شکل میں لمبائی کے رُخ پھیلی ہوئی ہے۔ وادیٔ مکہ کے جنوبی علاقے کو بطحاقریش یا صرف بطحا کہا جاتا ہے۔ حرم سے نیچے کی نشیبی آبادی مِسفلہ کہلاتی ہے اور بالائی علاقے کو معلاۃ یا المعلیٰ کہا جاتا ہے۔

یہیں مکہ کا تاریخی قبرستان ہے جس میں ام المومنین سیدہ خدیجہؓ مدفون ہیں۔ مکہ کے مشرق میں شعب علی (شعب ابی طالب) ہے جو ’’عقبہ‘‘ کے راستے مکہ سے ملی ہوئی ہے۔ اسے دورِ جاہلیت میں شعب بنی ہاشم کہا جاتا تھا۔ یہ گھاٹی عہدِ نبوی میں شعب ابی طالب اور آج کل شعبِ علی کہلاتی ہے۔

مکہ مکرمہ کی وجہ تسمیہ مکہ کے لغوی معنی کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:
مکہ مکرمہ کے نام کتاب شفاء الغرام میں اس مقدس شہر کے پچاس نام دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان میں سے بعض ناموں کا ذکر کیا ہے، مثلاً: مکہ، بکہ، قریہ، اُم القریٰ اور البلد الامین۔

سورۃ الفتح میں ’’مکہ‘‘ کا ذکر ’’ اور وہی (اللہ) تو ہے جس نے وادی مکہ میں ان (کفار) کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے۔
(آیت:24)
سورۃآل عمران میں نام ’’بکہ‘‘ ’’بے شک (اللہ کا) پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو بکہ میں ہے، وہ تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے۔
(آیت 96)
سورۃالبلد میں مکہ کے لیے لفظ ’’البلد
اللہ تعالیٰ نے اس شہر (البلد) کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا
’’میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی!
(آیت1)
سورۃ التین میں مکہ مکرمہ کو ’’البلد الامین‘‘ کہا گیا ہے
(قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی!
(آیات:3-1)
سورۃالنحل میں مکہ کے لیے لفظ ’’قریہ
قرآن حکیم میں تاریخ کے رشتے سے اس مقدس شہر کا ذکر ’’قریہ‘‘ کے زیر عنوان آیا ہے۔
’’اور اللہ نے مثال بیان کی ایک بستی (قریہ) کی جو امن اور چین والی تھی۔
(آیت112)
سورۃ الانعام میں مکہ کا نام ’’اُم القریٰ
قرآن میں مکہ مکرمہ کا نام ’’اُم القریٰ‘‘ (بستیوں کی ماں) اس آیت میں ہے
’’اور تاکہ آپ اُم القریٰ (مکہ) اور اس کے آس پاس والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں۔
(آیت92)

تاریخ میں مکہ کا اوّلین ذکر

لفظ مکہ لوگوں کی زبان سے کس وقت ادا ہونے لگا اور کتابوں کی زینت کب بنا، اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’ لفظ عرب دسویں صدی ق م میں مروج ہوا ہے۔

حجاز کا لفظ اس کے بھی بعد کا ہے۔ مکہ کا نام دوسری صدی مسیحی میں بطلیموس کے ہاں سب سے پہلے ’’مکاربا‘‘ کی شکل میں نظر آتا ہے۔
اسی لیے تورات نے اس کا نام’’مدبار‘‘ یعنی بادیہ بتایا ہے اور قرآن مجید نے اسے (ابراہیم ؑ کی زبان سے) وادی غیر ذی زرع (بن کھیتی زمین) کہا کہ اس وقت اس کے سوا اس کا کوئی دوسرا نام نہ تھا…

لفظ عرب کے لغوی معنی بھی بادیہ و صحرا کے ہیں۔ یوں مدبار (بادیہ)، وادیٔ غیرذی زرع اور عرب ہم معنی لفظ ہیں، اس لیے تورات کا یہ کہنا کہ اسمٰعیل ؑ نے بادیہ میں سکونت کی، بالکل یہ معنی رکھتا ہے کہ انھوں نے عرب میں سکونت اختیار کی۔
سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: فج سے تنعیم تک کا علاقہ مکہ کہلاتا ہے اور بیت اللہ سے بطحا تک کا علاقہ بکہ کہلاتا ہے۔

تنعیم: یہ مکہ کے قریب حدودِ حرم کے باہر شارع مکہ مدینہ پر ایک مقام ہے۔ یہیں مسجد عائشہ واقع ہے۔ اسے تنعیم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے دائیں جانب پہاڑ ہے جس کا نام نعَیم ہے۔ ایک اور پہاڑ اس کے شمال میں ہے جسے ناعم کہا جاتا ہے اور وادی کا نام نعَمان ہے۔

مکہ مکرمہ کی فضیلت اللہ تعالیٰ نے مکہ کو تمام شہروں پر فضیلت عطا فرمائی اور اس کا ذکر قرآن میں کئی جگہ فرمایا۔ رسول اللہﷺ نے ہجرت کے وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکہ کے مقام و مرتبہ کا جو ذکر فرمایا، اس سے مکہ کی فضیلت خوب عیاں ہوجاتی ہے۔

آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! تو اللہ کی سب سے بہتر اور اس کی سب سے محبوب زمین ہے اور اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘

مکہ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں بیت اللہ ہے جو صرف اللہ کی عبادت کے لیے اس کا اوّلین گھر ہے۔ سیدنا جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
’’میری اس مسجد (نبوی) میں ایک نماز مسجد الحرام کے سوا دیگر مساجد میں ہزار نماز سے بہتر ہے، البتہ مسجد الحرام میں ایک نماز ایک لاکھ نماز سے بڑھ کر ہے۔

مکہ روزِ اوّل سے حرم ہے مکہ مکرمہ کو ’’البلد الحرام‘‘کہا جاتا ہے۔ رسولﷺ کی حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت ہی سے حرم ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر حضورﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں ہاتھیوں کو آنے سے روک دیا تھا لیکن اب اپنے رسول اور مومنین کو مکہ پر قابض فرما دیا ہے۔ مجھ سے پہلے مکہ مکرمہ کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔

میرے لیے بھی کچھ وقت تک کے لیے حلال کیا گیا تھا۔ (فتح مکہ کی طرف اِشارہ ہے) (خبردار!) اس کے کسی شکار کو ڈرا کر بھگایا نہ جائے۔ اس کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں۔

اس میں گری پڑی چیز نہ اُٹھائی جائے، البتہ جو اعلان کرے، وہ اُٹھا سکتا ہے۔ جس شخص کا کوئی رشتے دار قتل ہوجائے، اسے دو چیزوں (قتل اور دیت) میں سے بہتر کا اختیار ہے (جو وہ بہتر سمجھے، اسے اختیار کرسکتا ہے۔

سیدنا عباسؓ نے گزارش کی: ’’اللہ کے رسول! اِذخر کو مستثنیٰ فرما دیجیے کیونکہ ہم اسے گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں اذخر مستثنیٰ ہے (اسے کاٹا جاسکتا ہے)۔ ‘‘ یاد رہے اِذخر ایک خوشبو دار گھاس ہے جو حجاز میں پائی جاتی ہے۔
(1)یہ مکہ سے مشتق ہے جس کے معنی ختم کر دینے کے ہیں۔ چونکہ مکہ لوگوں کے گناہوں کو ختم کردیتا ہے، اس لیے اس کا نام مکہ پڑگیا۔ (2)اس کے معنی جذب کرنا ہیں۔ کیونکہ یہ اطراف زمین میں بسنے والے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اس لیے اسے مکہ کہا جاتا ہے۔ (3)مکہ ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں پانی کم ہو۔ یہاں پانی کی قلت تھی، اس لیے اسے مکہ کہا جانے لگا۔ (تفسیر رازی

حُدودِ حرم کی تحدید و تجدید سب سے پہلے حرم کی حدود 1800ق م کے لگ بھگ سیدنا ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم سے مقرر فرمائیں۔

سیدنا ابراہیم ؑ نے سیدنا جبریل ؑ کی ہدایات کے مطابق حرم کی برجیاں نصب کیں، پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتیٰ کہ نبیﷺ کے جدِّ امجد قصی نے انہی کی تجدید کی، پھر رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے سال سیدنا تمیم بن اسد خزاعیؓ کو بھیجا، انھوں نے ان برجیوں کو نئے سرے سے بنایا، پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتیٰ کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓنے چار قریشیوں کو مقرر فرمایا جنھوں نے ان برجیوں کی پھر سے تجدید کی۔

مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے بڑے بڑے راستوں پر حدود حرم کے نشانات لگا دیے گئے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے

مغرب کی طرف جدہ روڈ پر مقام شُمَیسِیی ہے جسے پہلے حُدَیبِیَہ کہا جاتا تھا۔ یہ مکہ مکرمہ سے 22کلو میٹر دور ہے۔

جنوب کی طرف تہامہ سے یمن کے راستے پر مقام اَضَائَۃُ لِبن ہے جو مکہ مکرمہ سے 12کلو میٹر دور ہے۔ اضاء ۃ کا معنی ہے ’’زمین‘‘ اور لِبن ایک پہاڑ کا نام ہے۔
مشرق کی طرف وَادِی عرُنَہَ کا مغربی کنارہ ہے جو مکہ مکرمہ سے 15کلو میٹر دور ہے۔

شمال مشرق کی طرف جِعِرَّانَہ کے راستے پر بستی شرائع المجاہدین ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے 16کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ شرائع المجاہدین مکہ مکرمہ کے اہم علاقوں میں سے ایک ہے اور ان مجاہدین کی طرف منسوب ہے جو شاہ عبدالعزیز آل سعود کے ساتھ فتح حجاز میں شریک تھے۔

شمال کی طرف مقام تَنعِیم ہے جو مکہ سے 7کلو میٹر دور طریق المدینہ (طریق الھجرہ) پر واقع ہے۔ اب مکہ شہر ان حدود سے باہر تک پھیلتا جا رہا ہے۔
الابطح: یہاں جاہلیت میں قُصی، بنو خزاعہ اور بنو بکر کے مابین لڑائیاں ہوئی تھیں۔ 

وادی مکہ کے موڑ سے لے کر الحجون تک کا علاقہ الابطح کہلاتا ہے، پھر اس کے بعد مسجد الحرام تک بطحا ہے اور یہ دونوں المُعلاۃ میں شمار ہوتے ہیں۔
البطحا: اگرچہ بطحا ہر اس وادی کو کہا جاتا ہے جس میں سے سیلاب گزرنے کے باعث اس کی زمین ریتلی ہوگئی ہومگر علما البطحا سے وادیِ مکہ کا وہ حصہ مراد لیتے ہیں جو الحجون سے المسجد الحرام تک ہے۔

وادیٔ حنین ( الشرائع): یہ وادی مکہ کی وادیوں (ندیوں) میں شمار ہوتی ہے اور یہ مکہ سے تقریباً 30کلو میٹر مشرق میں ہے۔ ان دنوں اس کا نام الشرائع ہے اور غزوۂ حنین (8ھ) کے حوالے سے اس کا بالائی حصہ آج بھی حنین کہلاتا ہے۔
اس کا پانی وادی المغمس کے ذریعے سے سیل عُرنہ میں جا گرتا ہے۔ مکہ سے طائف کو طریق الیمانیہ پر جائیں تو مسجد الحرام سے28کلو میٹر کے فاصلے پر وادی الشرائع آتی ہے۔ یہاں الشرائع نامی ایک چشمہ اور بستی ہے جن سے یہ وادی منسوب ہے۔

اس چشمے کا نام پہلے المشاش تھا جہاں سے ملکہ زبیدہ نے مکہ کی طرف نہر زبیدہ جاری کی تھی۔ وادیٔ عُرَنہ:یہ وہ وادی ہے کہ اگر مسجد نمبرہ (مسجد عرفہ) کی قبلے والی دیوار گرے، تو وہ اس وادی میں گرے گی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دیوار اور امام کا مصلّا عَرفہ میں واقع ہیں لیکن دراصل یہ عَرفہ کے بارہ ہیں۔ وادی عَرفہ درحقیقت ایک بڑی وادی ہے جو ارض مغمس سے نکلتی ہے اور عرفات کے مغرب میں مسجد نمرہ کے پاس سے گزرتی ہے۔
کچھ دور جا کر وادی نعمان اس سے آ ملتی ہے اور پھر آگے اس کا نام وادی عرنہ ہی ہے جو مکہ کے جنوب سے ہو کر مغرب کا رُخ کرتی ہے حتیٰ کہ جدہ کے تقریباً تیس میل جنوب میں سمندر سے جا ملتی ہے۔
وادیٔ لِیّہ: یہ طائف کی بڑی وادیوں میں شمار ہوتی ہے اور طائف کے جنوب مغرب میں واقع جبل السراۃ سے نکلتی ہے جہاں سے بنو ہُذیل اور بنو ثقیف کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ مشرق کا رُخ کرکے طائف کے جنوب مشرق میں 15کلو میٹر کے فاصلے سے گزرتی ہے جہاں بنو سعد کے علاقے اور یمن کو جانے والے شاہراہ اسے پار کرتی ہے۔

جبل ثور اور جبل حرا جبل ثور پرانے مکہ سے تقریباً 3میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں غار ثور واقع ہے۔ اس کا طول 18بالشت (4.014میٹر)اور عرض 11 بالشت (2.053میٹر) ہے۔ غار کا ایک منہ دو ثلث بالشت (15.2سم) اور دوسرا پانچ بالشت(1.15میٹر) چوڑا ہے۔

جبل حرا کو جبل نور بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد الحرام سے اس کافاصلہ قریباً چار کلو میٹر ہے۔ یہ مکہ مکرمہ کے شمال مشرق میں منیٰ اور عرفات جانے والی شاہراہ کے بائیں جانب واقع ہے۔

عبدالرحمن عبد لکھتے ہیں: خاکستری تختے پہاڑ کے ساتھ اس طرح ٹک گئے ہیں کہ ایک متساوی الساقین مثلث جیسے منہ والا غار بن گیا ہے جس کا ہر ضلع اڑھائی میٹر لمبا ہے اور قاعدہ ایک میٹر کے لگ بھگ ہے۔ غار اندر تک دو یا سوا دو میٹر چلا گیا ہے اور اس کی اونچائی آگے کو بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔
عرفات مکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں جبل رحمت کے دامن میں عرفہ یا عرفات کا میدان واقع ہے جہاں حج کا بنیادی رُکن وقوفِ عرفات ادا کیا جاتا ہے۔ یہ میدان مکہ سے تقریباً 22کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

میدان عرفات کی حدود وادی عرنہ، ثوبہ اور نمرہ کے میدان سے ذوالمجاز تک اور مَازِمان کے آخری موقف تک ہیں۔ میدان عرفات کی مشہور جگہوں میں وادیِ نمرہ اور جبلِ رحمت شامل ہیں۔

وادی عُرنہ مکہ کے مشرق میں میدان عرفات کی حدود سے متصل ہے اور عرفات اور مسجد نمرہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ وادی حدودِ حرم میں شامل نہیں۔
عرفات کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ایک سے زیادہ اقوال ہیں۔ مثلاً: مصنف عبدالرزاق میں سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیلؑ کو سیدناابراہیمؓ کے پاس بھیجا، تو آپ نے ان کے ساتھ حج کیا حتیٰ کہ جب آپ عرفہ تشریف لائے، تو آپ نے فرمایا:
قَد عَرَفتُ ’’میں نے اسے پہچان لیا۔‘‘ کیونکہ آپ ایک بار اس سے پہلے بھی یہاں تشریف لائے تھے۔ اسی وجہ سے اسے عرفہ کہا جانے لگا۔ ابن عباسؓ، مفتی مکہ عطابن ابی رباح اور محدث ابومجلزؒ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
بقول امام رازیؒ جب اللہ تعالیٰ نے آدم اور حواؑ کو زمین پر اُتارا تو یہ برسوں بعد میدان عرفات میں ایک دوسرے سے ملے اور دونوں نے وہاں ایک دوسرے کو پہچان لیا، اس لیے اسے عرفہ کہا جاتا ہے۔

منیٰ اس مقام پر حاجیوں کو عرفہ کی رات طلوع شمس تک ٹھہرنے، یوم نحر کو واپس منیٰ آنے اور بعد والے ایام تشریق میں یہاں ٹھہرنے اور ان کی راتیں گزارنے کا حکم ہے۔ یہیں حجاج کرام جمرات کو کنکریاں مارتے ہیں۔
منیٰ کی حد وادیِ مُحَسَّر کے کنارے سے لے کر اس گھاٹی تک ہے جس کے پاس مکہ کی طرف والا آخری جمرہ ہے۔ اسے جمرۂ عقبہ کہا جاتا ہے۔
مُزدَلَفہ مزدلفہ وہ جگہ ہے جگہ ہے جہاں حج کے دوران میں عرفات سے واپسی پر نو اور دس ذوالحجہ کی درمیانی رات ٹھہرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزدلفہ کے معنی ہیں ’’قرب کی جگہ‘‘۔

ایک روایت کے مطابق حضرت آدم ؑ اماں حوّا کی تلاش میں نکلے اور اس جگہ ان کی ملاقات ہوئی تھی، اس لیے اسے مزدلفہ (ملاپ کی جگہ) کہا گیا۔ یہ عرفہ اور وادی مُحَسَّر کے دو تنگ پہاڑی راستوں کا درمیانی علاقہ ہے۔
مزدلفہ کو ’’جَمعُ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ اس میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ اس کے قریب ہی ’’اَلمشعَرُ الحَرَام‘‘ پہاڑی مقام ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے:
’’جب تم عرفات سے واپس آئو، تو مشعرِ حرام کے پاس (ٹھہر کر) اللہ کا ذکر کرو۔‘‘ (البقرہ:198:2)
وادی مُحَسَّر یہ وہ جگہ ہے جہاں تیزی کے ساتھ گزر جانا ضروری ہے۔
مُحَسَّر، منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے۔ یہ منیٰ میں شامل ہے نہ مزدلفہ میں۔ اسے وادی ’’مُھلَّل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حج کے دوران میں لوگ جب یہاں پہنچتے ہیں، تو تکبیریں پڑھتے ہوئے تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کا عمل بھی یہی تھا۔
اسی جگہ ہاتھی والوں پر عذاب نازل کیا گیا۔ جن قوموں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا، ان کے علاقوں میں جانے کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’ایسے لوگوں کے گھروں (علاقے) میں داخل نہ ہوا کرو جنھیں عذاب دیا گیا تھا مگر اس حالت میں کہ تم رو رہے ہو۔ اگر رونا نہ آئے تو ان میں داخل نہ ہو، کہیں تم بھی اس عذاب کی گرفت میں نہ آجائو جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے۔ 

Historical Places in Makkah

Post a Comment

0 Comments