ذی الحجہ کا پہلا عشرہ برکت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہم وقت ہے۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس عشرہ سے محبت کرتا اور اس کی قدر کرتا ہے تویہ دس مبارک دن ہیں۔ یہ بھرپور نیکیوں والے، برائيوں سے بچے جانے والے، بلند درجات حاصل کیے جانے والے اور طرح طرح کی کی نیکیاں کیے جانے والے دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے اور اور وہ اہم چیزوں ہی کی قسم کھاتا ہے۔فرمان تعالیٰ ہے:
(وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْر) )الفجر:1(
"قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی!۔"
جمہور مفسرین کے نزدیک فجر سے مراد یوم عرفہ کی نماز فجر ہے ۔ اور دس راتوں سے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔
رب العالمین کا ان ایام کی قسم کھانا درحقیقت ان کی بلندیِ عظمت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ عظیم چیز ہی کی قسم کھاتا ہے۔ جیسے عظیم ترین مخلوقات میں، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، ہوائيں، نیز عظیم اوقات میں فجر، عصر، چاشت، رات دن نیز عظیم ترین جگہوں میں، مکہ مکرمہ کی قسم کھا کر ان کی عظمت اور بلندیِ مرتبہ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ ان عظمت والے ایام میں کثرت سے نیک اعمال انجام دیں۔ برائیوں سے بچیں اور کمال محبت اور تمام انکساری وسرافگندگی کے ساتھ رب کی اطاعت وبندگی بجالائیں۔ اور میدان عمل میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی پوری جد وجہد کریں تاکہ دونوں جہان میں کامیابی سے ہمکنار ہو تے ہوئے اس کے عظیم عفو وکرم،رحم ومغفرت کے حقدار بن سکیں اور زبان حال سے گنگناتے ہوئے اقرار کریں :
عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل :
دنیا کے تمام دنوں میں دس دن سب سے افضل ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ما العمل فی أیام أفضل منھا فی ھذہ، قالوا: ولا الجھاد؟ قال: ولا الجھاد إلا رجل خرج یخاطر بنفسہ ومالہ فلم یرجع بشیء" (رواہ البخاری:969، ھکذا فی أکثر النسخ المعتمدۃ، وقدروی بلفظ: "ما العمل فی أیام العشر أفضل من العمل فی ھذہ، عند أحد رواۃ البخاری، لکنہ مرجوح کما ذکر ذلک ابن رجب فی شرحہ: 6/114، والحافظ ابن حجر: 2/532)
"ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں انجام دیے گئے اعمال سال بھر کے تمام دنوں میں انجام دیے جانے والے اعمال کی بہ نسبت زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:جہاد بھی اس سے افضل نہیں؟ فرمایا:جہاد بھی نہیں، ہاں البتہ اگر کوئی شخص جان ومال سے نکلے ،پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے،یعنی شہید ہوجائے۔
اسی حدیث کے بعض الفاظ کچھ مزید وضاحت کے ساتھ مروی ہیں ،چنانچہ امام احمد نے اپنی مسند:1968، اور امام ابوداود نے اپنی سنن:2438 میں یہ الفاظ درج فرمائے ہیں:
"ما من أیام العمل الصالح فیھا أحب إلی اللہ عز وجل من ھذہ الأیام، یعنی أیام العشر۔ قالوا ولا الجھاد فی سبیل اللہ؟ قال: ولا الجھاد فی سبیل اللہ، إلا رجل خرج بنفسہ ومالہ ثم لم یرجع من ذلک بشیء"
"نیک اعمال ان دس دنوں کی بہ نسبت کسی بھی دن میں اللہ رب العالمین کے نزدیک محبوب نہیں ہیں صحابہ نے عرض کیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا :جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، مگر کوئی شخص اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے ، پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے یعنی شہید ہوجائے۔"
اس روایت کی مزید تاکید جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
"أفضل أیام الدنیا أیام العشر" (رواہ البزار وصححہ الألبانی کما فی صحیح الجامع الصغیر: 1133)
"ذی الحجہ کے یہ دس دن دنیا کے دنوں میں سب سےافضل ہیں۔"
حافظ ابن رجب اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں:یہ حدیث نص ہے کہ مفضول کام بھی فضیلت والے اوقات میں افضل ہوجاتا ہے جیسا کہ ذی الحجہ کے ان ابتدائی دس دنوں میں انجام دیئے گئے اعمال تمام افضل اعمال پر فائق ہوں گے، سوائے اس مجاہد کے جو راہ حق میں شہادت کے منصب پر فائز المرام ہوچکا ہے۔ دیکھئے: (فتح الباری: 6/115)
در حقیقت یہ عظیم فضیلت ان اعمال جلیلہ کی وجہ سے ہے جو ان ایام میں انجام پاتے ہیں۔ جن میں سرفہرست حج جیسی عبادت ہے۔ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"من حج ھذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ" (بخاری: 1820، ومسلم: 1350)
" جس شخص نے بیہودہ گوئی اور ہر طرح کے گناہ سے بچ کر حج کیا وہ حج کے بعد اس طرح لوٹتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔"
گناہوں سے بچ کر سنت نبوی کے مطابق کیاگيا حج ہی حج مبرور ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے:
"والحج المبرور لیس لہ جزآء إلا الجنۃ" (بخاری: 1773، ومسلم: 1349)
"حج مبرور کا بدلہ جنت ہے۔"
نیز حج گناہوں کے مٹانے کا سبب ہے جیسا کہ حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں ہے:
"أما علمت أن الإسلام یھدم ما کان قبلہ، و إن الھجرۃ تھدم ما کان قبلھا و إن الحج یھدم ما کان قبلہ" (مسلم:121)
" کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پہلے کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ہجرت پچھلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور حج سابقہ تمام گنا ہوں کو مٹادیتا ہے۔"
عشرۂ ذی الحجہ کو یہ مقام اس وجہ سے بھی ہے کہ انہیں ایام میں ایک عظیم ترین دن ہے جس میں رب العالمین اپنے بندوں سے قریب ہو کر ان کو جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔ جسے ہم یوم عرفہ کہتے ہیں اس عظیم دن کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
"ما من یوم أکثر من أن یعتق اللہ فیہ عبدا من النار من یوم عرفہ، و إنہ لیدنو ثم یباھی بھم الملائکۃ، فیقول ما أراد ھؤلاء؟"
" کسی دن رب العالمین اپنے بندوں کو اس قدر جہنم سے آزاد نہیں کرتا جس قدر یوم عرفہ کو کرتا ہے۔ اس دن بندوں سے قریب ہوکر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟"
یہی دن در حقیقت حج کا اصل دن ہے جس میں سب سے بڑے رکن وقوف عرفات کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اس کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
"الحج عرفہ" (ترمذی: 889، نسائي: 3044، وصححہ الألبانی)
" حج عرفہ کا نام ہے۔"
انہیں فاضل ایام میں یوم نحر بھی ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"أعظم الأیام عند اللہ یوم النحر، ویوم القر" (أبو داود: 1767، وصححہ الألبانی)
"اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم نحر (یعنی دس ذی الحجہ) ہے۔ پھر اس کے بعد یوم قر (یعنی منی میں ٹھر نے کا دن) ہے۔"
بالاختصاریہ دس دن نہایت ہی مبارک ایام ہیں جن میں رب العالمین نے جملہ عبادات قلبیہ وبدنیہ اکٹھا کردیا ہے۔ جنہیں انجام دے کر بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہوئے وسیع جنتوں کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو اس کا اہل بنائے، آمین۔
ذی الحجہ کےابتدائی دس دنوں میں کرنے کے کام :
قارئین کرام ! ان فاضل ایام میں بہت سے اعمال مشروع ہیں، جن میں پنج وقتہ صلوات ، زکوۃ صدقات کے علاوہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنا غیر حجاج کے لیے مسنون ہے۔ بلکہ اس ایک دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کے کفارہ کا موجب ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
"صیام یوم عرفہ احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ التی بعدہ" (مسلم: 1162)
"عرفہ کے دن کا روزہ سابقہ اور لاحقہ سال کے گناہوں کوختم کردیتا ہے۔"
یہی وہ مبارک ایام ہیں جن میں حجاج کرام حج بیت اللہ کے شرف سے سرفراز ہوتے ہیں۔ اور آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر مناسک حج کا آغاز کرتے ہوئے وقوف عرفہ ومزدلفہ کرتے ہیں، طواف وسعی اورمنیٰ میں کنکر یاں مارتے ہوئے اپنے حج کو مکمل کرتے ہیں۔ اور رب کریم کے عطائے جزیل سے اپنی جھولیوں کو بھرتےہیں۔
ان فاضل ایام میں کثرت سے رب العالمین کا ذکر کرنا محبوب ترین اعمال میں سے ہے،رب کریم کا ارشاد ہے :
(لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ)
"اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقرره دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔"
بہیمۃ الانعام (پالتو چوپایوں ) سے مراد :اونٹ، گائے، بکری، بھیڑاور دنبہ وغیرہ ہیں۔
ایام معلومات سے مراد:دو مشہور اقوال کی روشنی میں یا تو ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں یا یوم النحر اور اس کے بعد کےبقیہ ایام تشریق ہیں جن میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔
اسی طرح دنیوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا تعلق تجارت وکاروبار اور حصول معاش کے متعدد وسائل سے ہے۔ (عام کتب تفاسیر) دوران حج ذکر کا حکم دیتے ہوئے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّين) (البقرۃ:198)
"جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، حالانکہ تم اس سے پہلے راه بھولے ہوئے تھے۔"
اعمال حج کی تکمیل کے بعد ذکر کا حکم دیتے ہوئے رب العالمین نے فرمایا:
(فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا) (البقرۃ: 200)
"پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیاده۔"
ان مبارک ایام میں ذکر واذکار کی اہمیت بیا ن کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"عن ابن عمر عن البنی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما من أیام أعظم عند اللہ ولاأحب إلیہ العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر، فأکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید" (رواہ أحمد: 2/75، 131)
"حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سال کے تمام ایام میں کوئی دن ایسا نہیں جس میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ عظیم اور محبوب ہو۔ اس لیے ان دنوں میں کثرت سے "لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر" اور "الحمد للہ" کہنا چاہئے۔"
مگر یہ روایت کافی شہرت کے باوجود ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ابو زیاد الہاشمی نامی ایک راوی ہے جو ضعیف ہے۔ ساتھ ہی اس روایت میں اس سے اضطراب واقع ہوا ہے۔ بایں طور کبھی اس نے مجاہد عن ابن عمر اور کبھی مجاہد عن ابن عباس روایت کیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: (تمام المنہ للألبانی: 353)
مگر ان ایام میں کثر ت سے اذکار بالخصوص یوم عرفہ کو مسنون ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"خیر الدعاء دعاء یوم عرفۃ، وخیر ما قلت أنا والنبیون من قبلی: لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر" (رواہ الترمذی: 3585، وحسنہ الألبانی فی صحیحہ: 1503)
" یوم عرفہ کی دعا سب سے بہتر دعا ہے۔ اور سب سے افضل دعا میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء نے جو کہی وہ ہے:
"لا إلہ إلا اللہ، وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وھو علی کل شیء قدیر"
" معبود برحق اللہ وحدہ لاشریک کے علاو ہ کوئی دوسرا نہیں۔ ہر طرح کی بادشاہت اور تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔"
یہ اذکار مردوں عورتوں دونوں اصناف کے لیے مسنون ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں:
"کنا نؤمر أن نخرج یوم العید حتی یخرج البکر من خدرھا، حتی یخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرھم ویدعون بدعاءھم، یرجون برکۃ ذلک الیوم وطھرتہ" (البخاری:971)
" ہم عورتوں کو عید کے دن عیدگاہ کی طرف جانے کا حکم دیا جاتا۔ یہاں تک کہ پردہ نشین کنواری اور حائضہ عورتوں کو بھی نکلنے کا حکم دیا جاتا۔ تاکہ وہ لوگوں کے پیچھے رہ کر ان کی تکبیر کی طرح تکبیر کہیں اور عمومی دعاؤں میں شریک رہیں۔ اس امید میں کہ انہیں بھی اس دن کی برکت اور پاکی نصیب ہو۔
گھر، دوکان، مکان، بازار وغیرہ تمام جگہوں کو ذکر الہٰی سے آباد کرنی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جا تے اور بلند آواز سے تکبیر کہتے۔ ان کی تکبیر سن کر لوگ بھی تکبیر کہتے ۔
بلکہ حضرت عمر اپنے خیمہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتے، ان کی تکبیر سن کر مسجد اور بازار کے لوگ تکبیر سے آواز بلند کرتے یہاں تک کہ منی تکبیر سے گونج جاتی ۔
ابن عمر ایام تشریق میں بمقام منیٰ فرض نمازوں کے بعد، اپنے بستر ، خیمہ ،بیٹھک وغیرہ تمام جگہوں میں چلتے پھر تے ان ایام میں تکبیر کہتے رہتے۔
ان مبارک ایام میں تکبیر کا یہ اہتمام خاص طور سے اس لیے بھی تھا کیوں کہ ذ کرالہی ہی سے دلوں کو سکون واطمینان ملتا ، اور فرحت وانبساط میسر ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ) (الرعد:28)
"یاد رکھو کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔"
در حقیقت انسان اسی کو زیادہ یاد کرتا ہے جس سے اسے دلی انسیت اور الفت ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنے رب کی یاد کو اپنی تسلی اور خوشی کا ذریعہ بناتا ہے۔ تو رب العا لمین کا معاملہ اس کے ساتھ اسی قدر پیارا ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ رب العالمین کہتا ہے:
" میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ سو اگر وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور اگر وہ چند افراد پر مشتمل جماعت میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت مجھ سے قر یب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔اگر وہ ایک ہاتھ مجھ سے قریب ہوتا ہے تو میں اس سے پورے پہونچے بھر (یعنی دو ہاتھ کے مساوی) قریب ہوتا ہوں۔ اوراگر وہ چل کر میری طر ف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتاہوں۔"
اپنے رب کو یاد کرنے کا معاملہ اگر اس کیفیت، الفاظ اور کلمات کے ساتھ جاری رہا جو خود مولائےکریم کا دیا ہوا ہے تو رب العالمین بیش بہا ثواب سے نوازتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: پاکی آدھا ایمان ہے۔ الحمد للہ میزان کو بھردیتا ہے۔ اور (سبحان اللہ، الحمد للہ ) آسمان وزمین کے درمیانی خلاء کو بھردیتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو کلمے رب العالمین کو بہت پیارے، زبان پربہت ہلکے، میزان میں بہت بھاری ہیں۔ وہ دونوں کلمے ہیں: (سبحان اللہ وبحمدہ، وسبحان اللہ العظیم)
حضرت سمرہ بن جند ب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ چار کلمات بہت پیارے ہیں: "سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر" ان کلمات میں جس سے بھی ابتداء کریں کوئی حرج نہیں۔
ذکر کے یہ کلمات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیارے تھے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں زبان سے "سبحان اللہ، و الحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر" کہوں تو یہ میرے لیے ہر اس چيز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہو۔ یعنی دنیا وما فیہا سے بھی بہتر۔
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنی زبان سے دس بار یہ دعا پڑھے:
"لا إلہ إلا اللہ، وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر"
تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اس نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے چار جانوں کو خریدکر آزاد کردیا ہے۔
ان اذکار پر یہ اجر عظیم عام ایام میں ہے۔ لیکن اگر زبان ومکان کے تقدس کاحسین امتزاج بھی انسان کے ساتھ شامل حال ہو۔ اور ذی الحجہ کے ابتدائی مبارک دنوں کو ان اذکار سے معمور کیا جائے تو بات کچھ اور ہی ہوگی۔ اور رب کے فضل واحسان،اجر وثواب کی اور ہی شان ہوگی۔
0 Comments