صبر ان امور میں سے ہے جو السام میں فرض ہیں۔ صبر نصف ایمان ہے۔ قرآین کریم نے 80مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے۔ کہیں اس کا حکم دیا گیاہے‘’’صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘(البقرہ2 :45 )
اور کہیں اس کے خلاف ورزی سے منع کیا گیا ہے ‘ جیسے :’’پس اے نبیؐ ! صبر کرو جس طرح اولواالعزم رسولوں نے ضبر کیا ہے اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔‘‘(الاحقاف46 :35 )
کہیں صابر کے ساتھ محبت کا اظہار کیا گیا ہے‘ جیسے : ’’اللہ تعالیٰ صابروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (آل عمران 3 :14 )
کہیں یہ بات کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ صابر لوگوں کا ساتھی ہے‘ جیسے :’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! صبر او رنماز سے مدد لرو۔‘‘ (البقرۃ2 :153 )
کہیں یہ بات بتائی گئی ہے کہ صابرین کا انجام بھلا ہوگا‘ جیسے: ’’اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ (النسائ4 :25 )
کہیں یہ ذکر ہے کہ ان لوگوں کو اجر عظیم سے نوازا جائے گا‘ جیسے: ’’بر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔‘ (الزمر39 :10 )
کہیں یہ ذکرہے کہ صابرین اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور نصیحتوں سے نفع حاصل کرتے ہین‘ جیسے : ’’ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس فرد کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔‘‘ (ابراہیم14:5 )
کہیں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے‘ جیسے : ’’تم پر سلامتی ہو‘ تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اور اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو۔‘‘(الرعد13 :24 )
اس کے علاوہ صبر و یقین کے ساتھ امامت فی الدین میسر آتا ہے: ’’اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔‘‘ (السجدۃ32 :24 )
یہ ان آیتوں میں سے چند آیات ہیں جو قرآن کریم میں صبر کے حوالے سے وارد ہیں۔
سنت نبوی میں بھی صبر کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
’’کسی نے کسی کو صبر سے زیادہ بہتر اور ا س سے کشادہ عطیہ نہیں دیا۔‘‘
’’مون کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے لیے تو خیر ہی خیر ہے۔ یہ چیز مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اگر اسے خوشی ہاصل ہوتی ہی تو شکر کرتا ہے‘ یہ اس کے لیے خیر ہے۔ اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔
صبر کے لغوی معنی روکنا اور باز رکھنا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں صبر کی تین قسمیں ہیں۔
ایک :اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر‘ دوسری: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے صبر‘ اور تیسری مصائب و مشکلات پر صبر۔
اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اس کی پابندی کرے‘ اس کے بارے میں اخلاق سے کام لے اور اس کو شریعت کے تقاضوں کے مطابق انجام دے۔ اس میں جو چیز مددگار ثابت ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعلایٰ کی معرفت حاصل کرے اور بندوں پر اس کے حقوق کو پہچان لے‘ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ تعلایٰ کی اطاعت کرتے ہیں ان کو اللہ تعلایٰ کی بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کاموں سے صبر یہ ہے کہ برائیوں کو چھوڑ دیا جائے اور گناہوں سے دور بھاگا جائے۔ نیز صابر مسلسل ان سے دور رہے اور راہ فرار اختیار کیے رہے۔
اس صبر کے حصول میں جو چیز معاون ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آدمی کے دل میں ہر وقت مستحضر رہے۔ اس استحضار کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے حیا کرے اور اس کے ساتھ محبت رکھتے۔ اس کے علاوہ صبر کے ثمرات کو مستحضر رکھنا بھی اس میں ممد ثابت ہوسکتاہے۔ صبر کے ثمرات میں ایک یہ ہے کہ آدمی کا ایمان برقرار رہے گا‘ اسے تقویت حاصل ہوگی اور اس میں بڑھوتری آئے گی۔ کیونکہ گناہ یا تو ایمان کو نقاص کردیتے ہیں یا اسے کمزور بنادیتے ہیں‘ یا اسے گدلا کرکے اس کے نور اور خوشنمائی کو ختم کردیتے ہیں۔
مصائب و مشکلات پر صبر اس طرح ہوتا ہے کہ مشکلات کر برداشت کیا جائے‘ اس پر ناراضی کو ترک کیا جائے اور لوگوں سے کوئی شکوہ شکایت نہ کی جائے۔ اس لیے کہ مخلوق سے شکایت صبر جمیل کے منافی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شکوہ صبر کے منافی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:’’اس نے کہا: میں اپنی پریشانیا ور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔‘‘ (یوسف12 : 86 )
اور حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ’’ یادکرو‘ جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔‘‘ (الانبیاء 21 :83 )
ان کے بارے مین ایک اور جگہ فرمایا :’’ ہم نے اسے صابر پایا‘ بہترین بندہ‘ اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔‘‘ (ص 38 :44 )
اس صبر کے لیے داعی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا استحضار کرے جن کا حساب اور گنتی مشکل ہے۔ اس طرح مصیبت زدہ کے لیے اس مصیبت کو برداشت کرنا آسان ہوتا ہے اور اس کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک آدمی کو دو ہزار روپے دیے جائیں اور ان میں سے ایک پیسہ اس سے گم ہوجائے۔ مصیبت پر صبر کے لیے یہ بات مدد ثابت ہوتی ہے کہ آدمی صابرین کے عظیم اجر کو ذہن میں لائے۔
(اصولِ دعوت)
ڈاکٹر عبدالکریم زیدان/ ترجمہ: گل زادہ شیرپائو
Benefits of Patience from the Qur'an and Hadith
0 Comments