دین پر عمل کرنا اگر صبر کا متقاضی ہے تو دین پر دوسروں کو عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنے کا کام کس درجہ صبر کا متقاضی ہوگا اور اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انبیائے علیہم السلام کی زندگی میں صبر کی جو اعلیٰ مثالیں ہیں وہ اسی تعلق سے ہیں۔ انہوں نے جو مشکلات اٹھائیں، اپنے کسی ذاتی مقصد کے تحت نہیں بلکہ وہ اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے مصائب و مشکلات برداشت کرتے رہے۔ دین کی اشاعت صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’ اور حضرت لقمان نے کہا تھا بیٹا نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر، یہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے‘‘۔ لقمان: 17
اشاعت دین میں تین حالتوں میں صبر کی ضرورت پیش آتی ہے:
دعوت دی جائے اور اس کو قبول نہ کیا جائے تو لازمی طور پر داعی کو تکلیف ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے اس کی شکایت کی تھی۔
’’اس نے عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا‘‘۔ نوح: 6-5
اس حالت میں صبر کے معنی یہ ہیں کہ مایوس ہوکر آدمی دعوت کا کام ترک نہ کردے، نہ جھنجلاہٹ کا شکار ہوکر حکمت و دعوت کے منافی کام کرنے لگے بلکہ صبر و استقامت سے اپنا فرض ادا کرتا رہے۔ یہی صبر ہے۔
پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دین کی دعوت دی گئی، دعوت دینے والوں کے لیے آزمائشوں کے دروازے وا ہوگئے۔ ایسی صورت میں صبر کے معنی ہیں کہ آزمائشوں اور مشکلات سے گھبرا کر دعوت کے کام سے سبک دوش نہ ہوجائے یا ردعمل کے طور پر مدعو کو اپنا حریف نہ بنالیا جائے، بلکہ اصل پیغام کو پامردی سے سنانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’تم سے پہلے بھی بہت رسول جھٹلائے جاچکے ہیں۔ مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے‘‘ ۔ الانعام: 34
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے
’’ اس سے پہلے کتنے ہی نبی گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں ، ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی وہ سرنگوں نہیں ہوئے ایسے ہی صابر کو اللہ پسند کرتا ہے‘‘۔
دعوت کا کام چٹکیوں میں ہونے والا کام نہیں ہے اور نہ یہ اشتہار بازی اور سیاسی ہنگامہ خیزی یا جلسے جلوس سے ہی انجام پاسکتا ہے، اس کے لیے مسلسل محنت، حکمت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے، جو صبر کے بغیر ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیںگزرا ہے جو تم سے پہلے لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ خبردار اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔ البقرہ: 214
صبر اور میدانِ جنگ: اسلام اور دشمن اسلام کے درمیان جنگ واقع ہو تو وہاں صرف ہار جیت کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ حق و باطل کی درمیان موت اور زندگی کا مسئلہ بن جاتا ہے اور یہ بات خدا کو ناپسند ہے کہ باطل کو غلبہ ہو (لیظہرہ علی الدین کلہ) لہٰذا میدانِ جنگ سے فرار شریعت اسلامیہ میں گناہ عظیم ہے، چاہے اسلامی فوج جتنی کم یا کمزور ہو، ہر حال میں میدانِ جنگ میں ثابت قدم رہتے ہوئے جنگی مشکلات کو برداشت کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہوتو ان کے مقابلے میں پیٹھ نہ پھیرو جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری الایہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت بری جائے بازگشت ہے‘‘۔ الانفال:16-15
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا
’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ البقرہ: 249
انسانی تعلقات میں صبر: صبر کا ایک محل انسانی تعلقات ہیں، ایک دوسرے سے تعلقات میں صبر کی خاصی ضرورت رہتی ہے، اس کے بغیر آپسی تعلقات خوشگوار نہیں رہ سکتے جس سے جتنا گہرا تعلق ہوگا اس کے بارے میں اتنی ہی صبر کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر آدمی کا سب سے قریبی تعلق اپنی بیوی سے ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی میں ناچاقیاں ہوتی ہیں، اگر ان پر صبر نہ کیا جائے تو یہ تعلق باقی نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر حکم دیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیا جائے، اگرچہ ان کی بعض ادائیں ناپسند ہوں۔
ارشاد ربانی ہے
’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کروا کر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔ النسائ: 19
ایک حدیث میں وارد ہے:
’’ایک مؤمن ناراض نہ ہو ایک مؤمنہ سے اگر اسے اس کی کوئی عادت بری لگے تو ہوسکتا ہے کہ اس کی کوئی عادت اچھی لگے‘‘۔ مسلم، احمد
علمائے اسلام نے بیان کیا ہے کہ پڑوسیوں کا صرف یہی حق نہیں ہے کہ ان کو اپنی ایذا سے بچائیں بلکہ ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کی ایذا پر صبر کریں۔ قرآن میں بار بار تلقین کی گئی ہے کہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا جائے اور برائیوں پر صبر کیا جائے۔
’’اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی، مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا، مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں‘‘۔ حم السجدہ: 35-34
0 Comments