.....امام غزالی......Imam Ghazali

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

.....امام غزالی......Imam Ghazali

اسلام کے نہایت مشہور مفکر اور متکلم کا نام محمد، اور ابو حامد کنیت تھی، جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ میں طوس میں ہوئی۔ آپ کے والد محمد بن محمد کا انتقال 465ھ میں اُس وقت ہوا جب آپ کی عمر پندرہ برس تھی۔ آپ کے چھوٹے بھائی حضرت شیخ احمد غزالی کی عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔ نیشاپور اُن دنوں علم و فن کا عظیم مرکز تھا۔

بڑے بڑے جید اور قابل ترین اساتذہ کرام نیشاپور میں موجود تھے۔ آپ نے نیشاپور میں مدرسہ نظامیہ میں اپنے وقت کے مشہور عالم دین علامہ ابوالمعالی جوینی کے زیرسایہ داخلہ لے لیا۔ علامہ جوینی کو امام الحرمین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کی خدمت میں حاضر رہ کر امام غزالی نے دیگر علوم کے علاوہ علم مناظرہ، علم الکلام اور علم فلسفہ کی تکمیل کی اور ان علوم میں اس قدر کمال حاصل کیا کہ علامہ جوینی کے تین سو شاگردوں میں سبقت لے گئے اور تھوڑی سی مدت میں فارغ التحصیل ہوکر سند حاصل کرلی۔ آپ کی عمر صرف اٹھائیس برس تھی جب آپ نے تمام علوم اسلامیہ یعنی فقہ و حدیث، تفسیر، علم مناظرہ، علم کلام، ادبیات، فارسی و عربی، ولایت اور علم فلسفہ میں درجۂ کمال حاصل کرلیا۔

478ء میں علامہ جوینی کا انتقال ہوگیا۔ آپ کی علم شناسی، علم دوستی، قابلیت و اہلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو اپنے استادِ محترم کی زندگی میں ہی مدرسہ نظامیہ میں نائب مدرس مقرر کردیا گیا تھا، پھر کچھ عرصے کے بعد آپ مدرسہ کے مدرس اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ امام کی علمی قابلیت کا اعتراف ان کے استادِ محترم امام جوینی بھی کیا کرتے تھے اور آپ کی شاگردی پر فخر کرتے تھے۔ امام غزالی نے اپنی کتاب ’’منحول‘‘ تصنیف فرمائی تو اسے اپنے استاد محترم علامہ جوینی کی خدمت میں پیش کیا۔ استاد محترم نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا ’’غزالی تم نے مجھے زندہ درگور کردیا ہے۔ یعنی یہ کتاب میری تمام شہرت پر حاوی ہوگئی اور میری شہرت دب کر رہ جائے گی‘‘۔

استاد محترم کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ امام غزالی آسمانِ علم و ہدایت کا ایک روشن ستارہ ہیں جس کی روشنی سے تاقیامت انسانیت مستفید ہوتی رہے گی۔ آپ کی کتاب’’المنقذ من الضلال‘‘ آپ کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ سیاسی انقلابات نے امام غزالی کے ذہن کو بہت متاثر کیا اور وہ دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہے، پھر حج کرنے چلے گئے اور آخر عمر طوس میں گوشہ نشینی میں گزاری۔ آپ کی دیگر مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ آپ کا انتقال505ھ میں طوس میں ہوا۔

Post a Comment

0 Comments