’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی کے بہترین اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ فضولیات سے کنارہ کش رہے۔‘‘
[حسن حدیث جسے ترمذی اور دیگر نے اسی طرح روایت کیا ہے]
شرح الحدیث: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی دین و دنیا کے معاملے میں ان امور سے سروکار نہ رکھے، جو کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں، یہ امور خواہ افعال سے متعلق ہوں یا اقوال سے۔
ترکِ مالایعنی کا مفہوم: اس حدیث میں جس طرح ایک مسلمان کے کمالِ اسلام کی ایک علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لایعنی افعال و اعمال و مقالات سے گریز کرتا ہے اسی طرح اس میں یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ مسلمان محض فضولیات اور بے معنی افعال و اقوال سے اپنا دامن ہی نہیں الجھاتا بلکہ اپنی نگاہ بھی اپنے نصب العین پر جمائے رکھتا ہے۔ جادۂ حق پر اس کا سفر یکسو ہوکر جاری رہتا ہے۔ راستے میں کئی ایسے مناظر ہوتے ہیں جو اس کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں مگر وہ ان کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا اور اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
مسلمان کے اس طرز زندگی کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ وہ دنیا کو چھوڑ کر گوشہ نشین ہوجائے اور دنیا کے جن حالات میں رہ کر اسے خود کو بندۂ خدا ثابت کرنا ہے اور جو حالات اس کے لیے اجرو ثواب کا باعث بنتے ہیں ان سے بھی دامن بچا کر اپنی ذات کے حصار میں بند ہوجائے اور یہ سمجھے کہ اس نے زہدو تقویٰ کے اعلیٰ درجات حاصل کرلیے ہیں۔ اسلام کا مطلوب یہ نہیں ہے بلکہ اسلام کا تقاضا اور دین کا منشا تو یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے انسان اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے مصروفِ عمل رہے اور محض اپنی ذات کی نجات کے لیے فکرمند نہ ہو، بلکہ انسانیت کی خیرخواہی کا جذبہ دل میں لیے اپنا فرض پورا کرے۔ اسلام کا یہ تقاضا ہر اُس شخص کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے جو دینِ اسلام کو بحیثیت نظام زندگی اور باعثِ نجات سمجھتا ہو۔
یہ حدیث بھی احسان کی ایک قسم مراقبہ سے متعلق ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان زندگی کا ہر عمل اس احساس کے ساتھ بجا لائے کہ مجھے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے جس کی نگاہِ دوربیں سے میرا ہر عمل ہی نہیں پوری کائنات کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں۔ قرآن مجید میں اس ضمن کی متعدد آیات ہیں، تفہیم مدعا کے لیے صرف ایک آیت درج کی جاتی ہے:
(ترجمہ)’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ (اور ہمارے اس براہِ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کررہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا، جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔‘‘
0 Comments