’ویلنٹائن ڈے‘..........بیہودگی اور خرافات کو ذرائع ابلاغ کس طرح ایک مقدس تہوار‘ بنا دیتے ہیں

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

’ویلنٹائن ڈے‘..........بیہودگی اور خرافات کو ذرائع ابلاغ کس طرح ایک مقدس تہوار‘ بنا دیتے ہیں

 
جنسی آوارگی، بیہودگی اور خرافات کو ذرائع ابلاغ کس طرح ایک مقدس تہوار‘ بنا دیتے ہیں
، اس کی واضح مثال ’ویلنٹائن ڈے‘ ہے۔
یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ یورپ میں بھی ’ویلنٹائن ڈے‘ کو آوارہ مزاج نوجوانوں کا عالمی دن سمجھا جاتا تھا، مگر آج اسے’محبت کے متوالوں‘ کے لئے ’یومِ تجدید ِمحبت‘ کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ میں ایک کثیر تعداد ’ویلنٹائن ڈے‘ منانے کو برا سمجھتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ ان کے خیالات کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اخلاقی نصب العین کے مقابلے میں ہمیشہ بے راہ روی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں، شاید سطحی صارفیت کے تقاضے انہیں یہ پالیسی اپنانے پر مائل کرتے ہیں!!
پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح ’ویلنٹائن ڈے‘ مٹھی بھر اوباشوں کے حلقہ سے نکل کر جدیدنوجوان نسل اور مغرب زدہ طبقات میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے،
اس کی توقع ایک اسلامی معاشرے میں نہیں کی جاسکتی۔ ہر سال ’ویلنٹائن ڈے‘ کو جس وسیع پیمانے پر اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں ’پروجیکشن‘ ملی اور جس والہانہ انداز میں مختلف اداروں نے اسے ایک ’ہردل عزیز تہوار‘ کا رنگ دینے کی کوشش کی، اس کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اندر سے اس قدر کھوکھلا ہوگیا ہے
اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت ِ میں لا دینیت اور جنسی بداعتدالیوں کو کس طرح تیزی سے پروان چڑھایا جارہا ہے،
اس کااندازہ پاکستان کے عام شہری نہیں کر پارہے۔
جن لوگوں کو اس کا اندازہ ہے، وہ بھی اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔
انگریزی اخبارات جن میں عشقیہ پیغامات کے لئے مکمل صفحے مختص کئے گئے، ان میں بازاری جملوں اور فلمی مکالموں کو شائع کیا گیا جن کے سرسری مطالعے سے بھی نوجوان نسل کے غلط رجحانات کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
محبت کے پیغامات بھیجنے والی یہ لڑکیاں اور لڑکے اسی پاکستانی معاشرے کے فرد ہیں۔ یہ مسلمان گھرانوں کی اولاد ہیں،
یہودی یاعیسائی نہیں ہیں۔ مگر وہ جس جنون اور پاگل پن کا شکار ہیں، کیا ایک مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ’کنڈکٹ‘ (کردار) یہی ہونا چاہئے؟
اگر وہ گم کردہ راہ ہیں، تو اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت، تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ، اساتذہ اور والدین، سب اپنی اپنی جگہ پر اس قومی ’جرم‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
آج اس ملک میں ویلنٹائن ڈے پر شہوت بھرے پیغامات کا آزادانہ تبادلہ ہورہاہے تو کل اسی پاکستان میں شہوانی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی نسل بھی ضرور پروان چڑھے گی۔ یورپ یہ نتائج دیکھ چکا ہے، ہم بھی اس عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یورپ میں بھی یہ سب کچھ ایک سال میں نہیں ہوگیاتھا،
ان کے ہاں بھی خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی انقلاب آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوا۔ یورپ کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کی دہائی دے رہے ہیں، مگر اب پانی ان کے سروں سے گذر چکا ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت محض ایک قلیل تعداد اس خطرناک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئی ہے، ہماری آبادی کی اکثریت اس آگ کی تپش سے اب تک محفوظ ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر چند جھاڑیوں کو لگی آگ کو بجھا دیا جائے، ورنہ یہ پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی…!!

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments