حضرت عبداﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ( حکومت، دولت و شہزادی کو ٹھکرانے والے صحابی کی داستان)
...............................................
حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن عساکر عبداﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کو رومی کافروں نے قید کرلیااور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا. بادشاہ نے آپ سے کہا کہ تم نصرانی بن جاؤ ، میں تمہیں اپنے راج پاٹ میں شریک کرلیتا ہوں اور اپنی شہزادی کو تمہارے نکاح میں دیتا ہوں. عبداﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ یہ تو کیا اگر تو اپنی بادشاہت مجھے دے دے اور تمام عرب کا راج بھی بھی مجھے سونپ دے اور یہ چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پھر جاؤں تو یہ بھی نا ممکن ہے. بادشاہ نے کہا پھر تجھے قتل کردوں گا. حضرت عبد اﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں یہ تجھے اختیار ہے. چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا اور تیر اندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم چھیدنا شروع کردیا. بار بار کہا جاتا کہ اب بھی نصرانیت قبول کرلو، اور آپ پورے صبر و استقلال کے سے فرماتے جاتے تھے کہ ہر گز نہیں.
آخر بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سولی سے اتار لو (اور پیتل کی بنی ہوئی دیگ خوب تپا کر آگ بنا کر لاؤ.) چنانچہ وہ پیش ہوئی. بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو. اسی وقت حضرت عبد اﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ کی موجودگی میں آپ کے دیکھتے ہوئے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا. وہ مسکین صحابی اسی وقت چرمر ہو کررہ گئے ، گوشت پوست جل گیا اور ہڈیاں چمکنے لگیں .پھر بادشاہ نے حضرت عبد اﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ دیکھو اب بھی وقت ہے بات مان لو اور ہمارا مذہب قبول کرلو ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا. آپ نے پھر بھی اپنے ایمان جوش سے کام لے کر فرمایا کہ ناممکن ہے کہ میں اﷲ کے دین کو چھوڑ دوں. اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دو .
جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کیلئے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سے آنسو نکل رہے ہیں. اس وقت اس نے حکم دیا کہ رک جائیں اور انہیں اپنے پاس بلالیا. اس لئے کہ اب اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاید اس عذاب کو دیکھ کر اس کے خیالات بدل گئے ہوں،میری مان لے گا اور میرے مذہب کو قبول کرکے میری دامادی میں آکر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا. لیکن بادشاہ کی یہ تمنا بے سود نکلی .حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ میں صرف اس وجہ سے رویا تھا کہ آہ! آج ایک ہی جان ہے جسے اﷲ کی راہ میں اس عذاب کے ساتھ قربان کررہا ہوں، کاش میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی تو آج سب میں سب جانیں اﷲ کی راہ میں ایک ایک کرکے فدا کردیتا.
بعض روایات میں ہے کہ آپ کو قید خانہ میں رکھا اور کھانا پینا بند کردیا. کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا ،لیکن آپ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ تک نہ فرمائی .بادشاہ نے آپ کوبلا بھیجا اور اسے نہ کھانے کا سبب دیافت کیا تو آپ نے جواب دیا : کہ اس حالت میں میرے لئے جائز تو ہوگیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتا . اب بادشاہ نے کہا: کہ اچھا تم میرے سر کا بوسہ لے لو، تو میں تمہیں اورتمہارے ساتھ کے تمام قیدیوں کو رہا کردیتا ہوں. آپ نے اسے قبول فرمالیا اور اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا. آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو چھوڑ دیا. جب حضرت عبداﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ یہاں سے آزاد ہو کرحضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے انہیں بڑے ادب کے ساتھ منبر رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر بٹھایا اور فرمایا کہ عبداﷲ اپنا واقعہ ہم کو سناؤ. چنانچہ جب آپ نے شروع کیا تو خلیفہ المسلمین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے کہ عبداﷲ بن حذافہ رضی اﷲ عنہ کی پیشانی چومے اور میں ابتداء کرتا ہوں. یہ فرما کر پہلے آپ نے ان کے سر کا بوسہ لیا اور پھر جمیع مسلمانوں نے،
( ابن کثیر ، جلد3 )( ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 65-62)
0 Comments