بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہر روز کوئی نہ کوئی خبر سنے کو ملتی ہے کے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ کتنا برا سلوک کرتے ہیں .. یہ سب دین سے دوری کا سببب ہے ....الله نے قرآن میں جہاں اپنے ساتھ شرک سے روکا ہے وہاں ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم بھی دیا ہے ...اگر ماں باپ مشرک بھی ہوں تو بھی اچھا سلوک کرنے ک احکم دیا ہے ... ماں باپ کی نافرما نی...
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہر روز کوئی نہ کوئی خبر سنے کو ملتی ہے کے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ کتنا برا سلوک کرتے ہیں .. یہ سب دین سے دوری کا سببب ہے ....الله نے قرآن میں جہاں اپنے ساتھ شرک سے روکا ہے وہاں ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم بھی دیا ہے ...اگر ماں باپ مشرک بھی ہوں تو بھی اچھا سلوک کرنے ک احکم دیا ہے ... ماں باپ کی نافرما نی...
صرف ایک وجہ ہے جب وو الله اور رسول کی بات کے خلاف کوئی بات کریں .... میں 2 یا 3 سال پہلے یہ بات سنی کا پاکستان میں بھی بچے اپنے ماں باپ کو گھروں سے نکال دیتے ہیں ... یہ بات سن کر مجے بہت حیرت ہوئی کے .... کے کسے ہیں وہ بچے ... ان کو ذرا بھی خیال نہں آیا کے وہ دنیا پر اے کسے تھے ..ماں باپ تو الله کی بہت بڑی نعمت ہیں .... ماں باپ اپنے بچوں کےلیے کتنی تکلیفیں اٹھا تے ہیں // یہ تو اس وقت بندے کو پتا چلتا ہے جب خود ماں یا باپ بنتے ہیں ... ماں باپ گھر کی رونق ہوتے ہیں ،،، یہ ان لوگوں سے پوچھیں جن کے ماں باپ نہں ہوتے ... کتنے لوگ دیکھے ہوں گے اپ نے میں نے بھی دیکھے ہیں .. ماں باپ کی نافرما نی ایک ایسا گناہ ہے جس کی سزا دنیا پر بھی ملتی ہے ...... میں نے اسے لوگ دیکھے ہیں جن کو دنیا پر سزا ملی .... اور ایسی بہوؤں بھی دیکھی ہیں جواپنی ساسوں کے ساتھ اچھا سلوک نہں کرتی پھر ان کے ساتھ بھی واسا ہی ہوتا ہے ... وقت بہت جلدی پھر کر آتا ہے .. آج جو بہو ہے کل وہ ان شاء الله ساس بھی بنے گی .. آج جو بوے گی کل ووہی کاٹے گی ...... اگر آج کسی بیٹے کو اپنی ماں سے الگ کروے گی تو کل پتا چلے گا جب اس کا بیٹا اس ماں کو چھوڑ کر جاہے گا ....... یہ جو فلاحی اداروں میں لوگ رکھتیہ ہیں ان سی پوچھیں کے ان کی اپنے مان باپ کی ساتھ کسے تعلقات تھے اور جائیں سانسوں کو ان کی بہوؤں نے گھروں سے نکالا ہے ان کے اپنی سانسوں کی ساتھ کسے تعلقات تھے ....
سورة لقمَان
اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (۱۴) اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا (۱۵)
سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا (۲۳) اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال) پر رحمت فرما (۲۴
سورة الاٴنعَام
کہہ دو آؤ میں تمہیں سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو 151
سورة البَقَرَة
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے اچھا سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم کرنا اور زکوةٰ دینا پھر سوائے چند آدمیوں کے تم میں سے سب منہ موڑ کر پھر گئے (۸۳)
سورة النِّسَاء
اور الله کی بندگی کرو اورکسی کو اس کا شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اورپاس بیٹھنے والے او رمسافر او راپنے غلاموں کے ساتھ بھی نیکی کرو بے شک الله اترانے والے بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (۳۶)
"حضرت اسماء رضی اللہ عنہا( بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ) کہتی ہیں میری والدہ اس زمانے میں مدینہ آئی جب رسول اکرم ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان صلح(حدیبیہ) ہو چکی تھی،اس کا والد( یعنی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا نانا) بھی اس کے ساتھ تھا میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا "میری ماں آئی ہے اور اسے اسلام سے سخت نفرت ہے اس سے کیسا سلوک کروں؟" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اس سے اچھا سلوک کرو۔" (رواہ البخاری)والدین کا حق
(٤٠)۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عمروٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِی مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِی يَحْتَاجُ مَالِی قَالَ: أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ إِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْيَبِ کَسْبِکُمْ فَکُلُوا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ۔ (ابوداود، رقم ٣٥٣٠)
''عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرے باپ کو میرے مال کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ ہی کا ہے۔ (اے لوگو)۔ بے شک تمھاری اولاد تمھاری پاکیزہ کمائی ہے، چنانچہ (تمھارے لیے یہ جائز ہے کہ)۔ تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔''
توضیح:
انسان کی اولاد اُس کی کمائی ہے۔ چنانچہ والدین اُن کی کمائی میں سے اپنی ضروریات کے بقدر بلا ججھک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کا مال ان کے لیے کسی غیر کا مال نہیں ہوتا۔
ماں باپ کی خدمت نہ کرنے پر ذلت
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے۔لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے، یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اُس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور وہ اِس کے باوجود (اُن کی خدمت کر کے)۔ جنت میں داخل نہ ہو سکا۔
(مسلم، رقم ٦٥١٠)
پسندیدہ عمل
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا، پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، پھر پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔''
(مسلم، رقم٢٥٢)
والدین کی رضا مندی میں ہی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے
__________________________ __________________
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-
رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے -
(ترمزی :: 1899)
ایک دوسری روایت میں والد کی جگہ والدین کا ذکر ہے -
(صیح الترغیب :: 2503)
والد کی اطاعت میں اللہ کی اطاعت ہے
__________________________ _____
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-
اللہ کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ کی نا فرمانی والد کی نافرمانی میں ہے -
(صیح الترغیب :: 2502)
والد جنت کا بہترین دروازہ ہے
_______________________
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
والد جنت (میں داخلے ) کا سب سے بہترین دروازہ ہے اب تم اس دروازے کو (نافرمانی اور بر ے سلوک کے ذریعے ضائع کر لو یا ( اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے ) اس کو محفوظ کر لو ،،
(ترمزی :: 1900)
سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے
__________________________ _____________
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپ نے فرمایا: تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھارا باپ۔''
(بخاری،رقم٥٩٧١)، (مسلم، رقم ٦٥٠١)
ماں کے قدموں تلے جنت ہے
بلا شبہ جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے جہاد میں جانے کا ارادہ کیا ہے اور میں آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تیری ماں موجود ہے ،
اس نے عرض کیا ، ہاں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس کی خدمت کو لازم پکڑ کیوں کہ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے -
(نسائی :: 3104 )
رب الرحمھما کما ربیانی صغیرا
سورة لقمَان
اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (۱۴) اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا (۱۵)
سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا (۲۳) اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال) پر رحمت فرما (۲۴
سورة الاٴنعَام
کہہ دو آؤ میں تمہیں سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو 151
سورة البَقَرَة
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے اچھا سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم کرنا اور زکوةٰ دینا پھر سوائے چند آدمیوں کے تم میں سے سب منہ موڑ کر پھر گئے (۸۳)
سورة النِّسَاء
اور الله کی بندگی کرو اورکسی کو اس کا شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اورپاس بیٹھنے والے او رمسافر او راپنے غلاموں کے ساتھ بھی نیکی کرو بے شک الله اترانے والے بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (۳۶)
"حضرت اسماء رضی اللہ عنہا( بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ) کہتی ہیں میری والدہ اس زمانے میں مدینہ آئی جب رسول اکرم ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان صلح(حدیبیہ) ہو چکی تھی،اس کا والد( یعنی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا نانا) بھی اس کے ساتھ تھا میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا "میری ماں آئی ہے اور اسے اسلام سے سخت نفرت ہے اس سے کیسا سلوک کروں؟" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اس سے اچھا سلوک کرو۔" (رواہ البخاری)والدین کا حق
(٤٠)۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عمروٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِی مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِی يَحْتَاجُ مَالِی قَالَ: أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ إِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْيَبِ کَسْبِکُمْ فَکُلُوا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ۔ (ابوداود، رقم ٣٥٣٠)
''عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرے باپ کو میرے مال کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ ہی کا ہے۔ (اے لوگو)۔ بے شک تمھاری اولاد تمھاری پاکیزہ کمائی ہے، چنانچہ (تمھارے لیے یہ جائز ہے کہ)۔ تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔''
توضیح:
انسان کی اولاد اُس کی کمائی ہے۔ چنانچہ والدین اُن کی کمائی میں سے اپنی ضروریات کے بقدر بلا ججھک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کا مال ان کے لیے کسی غیر کا مال نہیں ہوتا۔
ماں باپ کی خدمت نہ کرنے پر ذلت
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے۔لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے، یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اُس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور وہ اِس کے باوجود (اُن کی خدمت کر کے)۔ جنت میں داخل نہ ہو سکا۔
(مسلم، رقم ٦٥١٠)
پسندیدہ عمل
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا، پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، پھر پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔''
(مسلم، رقم٢٥٢)
والدین کی رضا مندی میں ہی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے
__________________________
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-
رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے -
(ترمزی :: 1899)
ایک دوسری روایت میں والد کی جگہ والدین کا ذکر ہے -
(صیح الترغیب :: 2503)
والد کی اطاعت میں اللہ کی اطاعت ہے
__________________________
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-
اللہ کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ کی نا فرمانی والد کی نافرمانی میں ہے -
(صیح الترغیب :: 2502)
والد جنت کا بہترین دروازہ ہے
_______________________
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
والد جنت (میں داخلے ) کا سب سے بہترین دروازہ ہے اب تم اس دروازے کو (نافرمانی اور بر ے سلوک کے ذریعے ضائع کر لو یا ( اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے ) اس کو محفوظ کر لو ،،
(ترمزی :: 1900)
سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے
__________________________
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپ نے فرمایا: تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھارا باپ۔''
(بخاری،رقم٥٩٧١)، (مسلم، رقم ٦٥٠١)
ماں کے قدموں تلے جنت ہے
بلا شبہ جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے جہاد میں جانے کا ارادہ کیا ہے اور میں آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تیری ماں موجود ہے ،
اس نے عرض کیا ، ہاں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس کی خدمت کو لازم پکڑ کیوں کہ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے -
(نسائی :: 3104 )
رب الرحمھما کما ربیانی صغیرا
0 Comments