صدقۂ فطر کیا مقصد یہ ہے کہ عید کے دن مسکین مسلمانوں کو دست سوال پھیلانے سے بے نیاز کردیا جائے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوع ثابت ہے ۔’’وَقَالَ: أَغْنُوہُمْ عَنِ الطَّلبِ فِی ہَذَا الْیَوْمِ‘‘’’عید کے دن مسکین مسلمانوں کو سوال سے بے نیاز کردو۔(دارقطنی)
اورصدقۂ فطر کے ذریعہ روزے دار کی بے ہودہ گوئی اور فحش کلامی کی میل دور ہوتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِلصَّاءِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ‘‘ ’’صدقۂ فطر روزے دار کی بے ہودہ گوئی اور فحش کلامی کی میل کو دور کرتا ہے اور پاک کرتا ہے۔(ابوداؤد : ۱۶۰۹، کتاب الزکوۃ: باب زکوۃ الفطر)
صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟
صدقہ فطر ہر آزاد مسلمان پر واجب ہے جب کہ وہ نصاب کا مالک ہو۔ خواہ اسی دن یعنی یکم شوال کو مالک ہوا ہو، اس پر سال گذرنا شرط نہیں۔ چھوٹے بچوں کا صدقہ فطر ان کے والد کے ذمے ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو دادا کے ذمے اپنے یتیم پوتوں پوتیوں کا صدقہ فطر دینا واجب ہے۔ جو بچہ عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے پیدا ہو اس کا صدقہ فطر بھی دینا ہوگا۔ صدقہ فطر نماز عید سے قبل ادا کرنا چاہئے۔
صدقہ فطر کس کو دیا جائے؟
صدقہ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوة کے مستحق ہیں۔ صدقہ فطر اپنے غریب رشتہ داروں کو دینے میں زیادہ فضیلت ہے۔ دینی مدارس کے طلباء و طالبات صدقہ فطر کا بہترین مصرف ہیں۔ ان کو صدقہ فطر دینے سے اشاعت دین میں مدد کا اجر بھی ملے گا۔
صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے؟
احادیث میں جن چیزوں کا ذکر ہے ان کے مطابق اس سال یعنی 1434 ھ بمطابق 2013کا صدقہ فطر درج ذیل ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اعلی سے اعلی چیز کو اختیار کرے۔
کشمش 1280 روپے فی کس
کھجور750 روپے فی کس
جو140 روپے فی کس
گندم80 روپے فی کس
ہر شخص کو چاہئے کہ صدقہ فطر اپنی حیثیت کے مطابق دے۔ صرف گندم کو مخصوص کرلینے سے اگرچہ صدقہ فطر ادا ہوجاتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اگرا للہ تعالی نے وسعت دی ہے تو کشمش، کھجور یا جو کے مطابق صدقہ فطر ادا کرے۔
آخر میں اللہ عزوجل سے دعا ھیکہ اللہ ھم سب کی عبادات، روزے ، اور اعمال صالحہ اہنی بارگاہ مبارکہ میں قبول و منظور فرمائے اور ھم سب کو رمضان المبارک کی برکات بار بار نصیب فرمائے۔۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔
0 Comments