حضرت اسلم رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کیساتھ حرہ کی طرف جارہا تھا ۔ ایک جگہ آگ جلتے ہوئی جنگل میں نظر آئی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ شاید یہ کوئی قافلہ ہے جو رات ہو جانے کی وجہ سے شہر میں نہیں گیا باہر ہی ٹھہر گیا ۔ چلو اس کی خیر خبر لیں۔ رات کو حفاظت کا انتظام کریں ۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت ہے جس کیساتھ چند بچے ہیں جو رو رہے ہیں اور چلارہے ہیں ، اور ایک دیگچی چولہے پر رکھی ہے جس میں پانی بھرا ہوا ہے اور اس کے نیچے آگ جل رہی ہے۔ انہوں نے سلام کیا اور قریب آنے کی اجازت لیکر اس کے پاس گئے اور پوچھاکہ یہ بچے کیوں رورہے ہیں۔ عورت نے کہا کہ بھوک سے لاچار ہو کر رورہے ہیں۔دریافت فرمایا کہ اس دیگچی میں کیا ہے۔ عورت نے کہا کہ پانی بھر کر بہلانے کے واسطے آگ پر رکھدی ہے کہ ذرا ان کو تسلی ہو جائے اور سو جائیں ۔امیرالمومنین عمر رضی اﷲ عنہ کا اور میرا اللہ ہی کے یہاں فیصلہ ہوگا کہ میری اس تنگی کی خبر نہیں لیتے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ رونے لگے اور فرمایا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے بھلا عمر رضی اﷲ عنہ کو تیرے حال کی کیا خبر ہ...ے۔ کہنے لگی کہ وہ ہمارے امیر بنے ہیں اور ہمارے حال کی خبر بھی نہیں رکھتے۔ اسلم رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ مجھے ساتھ لیکر واپس ہوئے اور ایک بوری میں بیت المال میں سے کچھ آٹا اور کھجوریں اور چربی اور کچھ کپڑے اور کچھ درہم لئے۔ غرض اس بوری کو خوب بھر لیا۔ اور فرمایا کہ یہ میری کمر پر رکھدے۔ میں نے عرض کیا کہ میں لے چلوں ۔ آپ نے فرمایا نہیں میری کمر پر رکھدے۔ دو تین مرتبہ جب میں نے اصرارکیا تو فرمایا کیا قیامت میں بھی میرے بوجھ کو تو ہی اٹھائے گا اس کو میں یہ اٹھاؤں گا اسلئے کہ قیامت میں مجھ ہی سے اسکا سوال ہوگا۔ میں نے مجبور ہو کر بوری کو آپکی کمر پر رکھدیا۔ آپ نہایت تیزی کے ساتھ اسکے پاس تشریف لے گئے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ وہاں پہنچ کر اس دیگچی میں آٹا اور کچھ چربی اور کھجوریں ڈالیں اور اس کو چلانا شروع کیا اور چولہے میں خود ہی پھونک مارنا شروع کیا۔ اسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ کی گنجان داڑھی سے دھواں نکلتا ہوا میں دیکھتا رہا، حتیٰ کہ حریرہ سا تیار ہوگیا۔ اسکے بعد آپ نے اپنے دست مبارک سے نکال کر ان کو کھلایا۔ وہ سیر ہو کر خوب ہنسی کھیل میں مشغول ہوگئے اور جوبچا تھا وہ دوسرے وقت کے واسطے ان کے حوالے کر دیا۔ وہ عورت بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے، تم تھے اسکے مستحق کہ بجائے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے تم ہی خلیفہ بنائے جاتے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو تسلی دی اور فرمایا کہ جب تم خلیفہ کے پاس جاؤگی تو مجھ کو بھی وہیں پاؤگی ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اسکے قریب ہی ذرا ہٹ کر زمین پر بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد چلے آئے اور فرمایا کہ میں اسلئے بیٹھاتھا کہ میں نے انکو روتے ہوئے دیکھا تھا۔ میرا دل چاہا کہ تھوڑی دیر ان کو ہنستے ہوئے بھی دیکھوں
0 Comments