Hazrat Abu Bakar Siddiq (R)

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

Hazrat Abu Bakar Siddiq (R)


 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ573 ءمیں پیدا ہوئے، آپ کا نام عبداللہ ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا۔ آپ کاپیشہ تجارت تھا، اسلام سے قبل بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار علاقے کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپ کی دیانت دار ی ،راستبازی اور امانت دار...ی کا خاص شہرہ تھا ،اہل مکہ آپ کو علم ،تجزیہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے ،آپ کی حیثیت مکہ مکرمہ واطراف کے چیف جسٹس کی تھی، قبول اسلام سے پہلے بھی آپ تمام رزائل اور غیر اخلاقی افعال سے دور رہتے تھے۔

سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب ؓنے فرمایا کہ ابو بکر ؓ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپؓ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکرؓ تھے۔(ابن حبان)حضرت ابو یحیی ؒسے روایت ہے انہوں نے حضرت علی المرتضی ؓ کو قسم اٹھا کر یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوبکر ؓ کا لقب صدیق اللہ تعالی نے آسمان سے نازل فرمایا۔حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے : حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم اللہ رب العزت کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔ پس اس دن سے آپؓ کالقب عتیق(آگ سے آزاد) پڑگیا۔(مستدرک حاکم،ترمذی،ابن حبان)
حضرت سھل بن سعدؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکرؓسے محبت اور ان کا شکر ادا کرنا میری امت پر واجب ہے۔(ہیثمی،حاکم،سیرت حلبیہ،البدایہ والنہایہ)

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر:
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ پس آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں۔ (ترمذی، حاکم، مسنداحمد)

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ:
حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے انہوں نے فرمایا : جب غار کی رات تھی تو ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !مجھے اجازت عنایت فرمائیے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے غار میں داخل ہوں تاکہ اگر کوئی سانپ یا کوئی اور چیز ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے مجھے تکلیف پہنچائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : داخل ہو جا۔ حضرت ابوبکرؓ داخل ہوئے اور اپنے ہاتھ سے ساری جگہ کی تلاشی لینے لگے۔ جب بھی کوئی سوراخ دیکھتے تو اپنے لباس کو پھاڑ کر سوراخ کو بند کر دیتے۔ یہاں تک کہ اپنے تمام لباس کے ساتھ یہی کچھ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر بھی ایک سوراخ بچ گیا تو انہوں نے اپنی ایڑی کو اس سوراخ پر رکھ دیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اندر تشریف لانے کی گزارش کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی : اے میرے اللہ!ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں رکھنا۔(حلیة الاولیائ)

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے مسجد میں داخل ہوئے اس دوران حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ہم قیامت کے روز اسی طرح اٹھا ئے جائیں گے۔(ترمذی،ابن حبان)

حضرت سعید بن المسیب ؒسے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام لانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی(دوسرے)تھے، غارِ (ثور)میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، غزوہ بدر میں عریش (وہ چھپر جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنایا گیا تھا)میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت ابوبکرؓ)پر کسی کو بھی مقدم نہیں سمجھتے تھے۔ (مستدرک حاکم)

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج شناس:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالی نے ایک بندے کو دنیا اور جو اللہ کے پاس ہے کے درمیان اختیار دیا ہے۔ پس اس بندے نے اس چیز کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں، اس پر ابوبکر صدیق ؓ رو پڑے۔ (متفق علیہ،سنن)حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو کوئی نہ سمجھا۔ ابوبکرؓ (بات کی تہہ تک پہنچ کر)رونے لگے پھر عرض کیا : ہمارے ماں باپ اور بیٹے آپ پر قربان۔(طبرانی)

سب سے افضل وبہادر:
حضرت محمد بن حنفیہؒسے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد حضرت علیؓسے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری،ابوداود)
حضر ت علی المرتضی ؓ نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سب سے بہادر کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہیں۔ آپ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے بہادر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔

امت پرسب سے بڑھ کررحم کرنے والے:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر ؓ ہیں(طبرانی)

سب سے پہلے قرآن جمع کرنے والے:
حضرت علی المرتضی ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا : قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکر ؓ ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع کیا۔(مسنداحمد،ابن ابی شیبہ)

سب کچھ دین پرنثار:
حضرت ابو بکر ؓجب اسلام لائے تو اس وقت ان کے پاس گھر میں چالیس ہزار درہم موجود تھے، لیکن جب آپؓ مکہ سے ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپؓکے پاس صرف پانچ ہزاردرہم رہ گئے تھے، آپ نے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔(ابن عساکر)

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر ؓ کے مال نے دیا ہے۔صحابہ کرام ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر ؓکے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں۔(ترمذی،دیلمی،فیض القدیر)

حضرت زیدؓ اپنے والداسلم ؓ سے روایت کرتے ہیں: میں نے حضرت عمرؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے کہا، اگر میں ابوبکرؓ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاوں گا۔فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کی : اتنا ہی مال ان کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے ابوبکر!پنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی : میں ان کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں نے دل میںکہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔(ترمذی۔مسندبزار)

شاعرمشرق علامہ اقبال نے اسی اندازعشق کویوں بیان کیاہے:
پروانے کوچراغ ،توبلبل کوپھول بس
صدیق ؓ کے لیے ہے خداکارسول بس

جنت کے ہردروازے سے بلاوا:
بخاری کی ایک طویل حدیث میںحضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :جو اللہ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی جو اِن سارے دروازوں سے بلایا جائے اسے تو خدشہ ہی کیا۔ پھر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اے ابوبکر!مجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو۔حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اہلِ جنت میں سے ایک شخص تم پر نمودار ہو گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ نمودار ہوئے، آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ (ترمذی، حاکم، مسنداحمد)

حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے لیے فرمایا : یہ دونوں عمر رسیدہ اہل جنت کے سردار ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے :ایک موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر! اللہ رب العزت نے تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائی ہے۔ کسی نے بارگاہِ نبوت میں عرض کی۔ یا رسول اللہ!رضوانِ اکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت آخرت میں اپنے بندوں کی عمومی تجلی فرمائے گا اور ابوبکرؓ کے لئے خصوصی تجلی فرمائے گا۔(طبرانی، المعجم الاوسط)

امت کے امام اول:
ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرضِ وصال میں ارشاد فرمایا۔ ابوبکر ؓ کو (میری طرف سے)حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ وہ فرماتی ہیں۔ میں نے کہا کہ:ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو وہ کثرتِ گریہ کی وجہ سے لوگوں کو کچھ بھی سنا نہیں سکیں گے،آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ مزید فرماتی ہیں: میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کریںکہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسے ہی کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ کومیری طرف سے حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔(متفق علیہ، سنن)

صحابہ کرام اس بات کواچھی طرح سمجھتے تھے کہ آپ کونمازکاامام بناکرحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرمادیاہے کہ پہلے خلیفہ بھی آپ ہوں گے،جیساکہ حضرت علی ؓ نے فرمایاتھا:”میں اس ابوبکر کی بیعت کیوں نہ کروں جسے مرض الوفات میں میری موجودگی کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام نماز ہی نہ بنایا ،بلکہ مجھے اور چچا عباسؓ کو ان کی اقتدا کا حکم بھی دیا۔“(افضل البشربعدالانبیائ)

حبیب کو حبیب سے ملا دو:
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سفر زندگی کے آخری دنوں میں حضرت علی ؓ کو بلا یا اور وصیت فرمائی کہ اے علی!جب میری وفات ہوجائے تو مجھے تم اپنے ہاتھوں سے غسل دینا، کیونکہ تم نے ان ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا ہے، پھر مجھے میرے پرانے کپڑوں میں کفن دے کر اس حجرہ کے سامنے رکھ دینا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزار ہے ۔ اگر بغیر کنجیوں کے حجرے کا قفل خود بخود کھل جائے تو اندر دفن کردینا ِورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں لیجا کر دفن کردینا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے 22جمادی الثانی 13ہجری کو وفات پائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے جنازے کو حجرہ مبارکہ کے سامنے رکھ کر عرض کیا گیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم , یہ آپ کے یار غار ابوبکرؓ آپ کے دروازہ پر حاضر ہیں اور ان کی تمنا ہے کہ انھیں آپ کے حجرے میں دفن کیا جائے ، یہ سن کر حجرہ کا دروازہ جو پہلے سے بند تھا، خودبخود کھل گیا اور آواز آئی: حبیب کو حبیب سے ملا دو ،کیونکہ حبیب کو حبیب سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ جب حجرے سے حضرت صدیق اکبرؓ کے دفن کرنے کی اجازت مل گئی تو جنازے کو اندر لے جایا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں آپ کو دفن کردیا گیا۔( سیرت الصالحین )

اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں حضرت سیدناابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی اتباع اوران کی عظمت کے تحفظ کے لیے قبول فرمائے (آمین)
 
Hazrat Abu Bakar Siddiq (R)
Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments